Punjabi Kavita
Dushyant Kumar

Punjabi Kavita
  

Saaye Mein Dhoop Dushyant Kumar

سایے میں دھوپ دشینت کمار

1. کہاں تو تی تھا چراغاں ہریک گھر کے لئے

کہاں تو تی تھا چراغاں ہریک گھر کے لئے،
کہاں چراغ میسر نہیں شہر کے لئے ۔

یہاں درختوں کے سایے میں دھوپ لگتی ہے،
چلو یہاں سے چلیں اور عمر بھر کے لئے ۔

ن ہو قمیض تو پانو سے پیٹ ڈھنک لینگے،
یہ لوگ کتنے مناسب ہیں، اس سفر کے لئے ۔

خدا نہیں، ن صحیح، آدمی کا خواب صحیح،
کوئی حسین نظارہ تو ہے نظر کے لئے ۔

وے متمئین ہیں کہ پتھر پگھل نہیں سکتا،
میں بے قرار ہوں آواز میں اثر کے لئے ۔

تیرا نظام ہے صلع دے زبان شایر کی،
یہ ایہتیات ضروری ہے اس بہر کے لئے ۔

جئیں تو اپنے بغیچے میں گل موہر کے طلے،
مریں تو غیر کی گلیوں میں گل موہر کے لئے ۔

(متمئین=سنتشٹ)

2. کیسے منظر سامنے آنے لگے ہیں

کیسے منظر سامنے آنے لگے ہیں،
گاتے-گاتے لوگ چلانے لگے ہیں ۔

اب تو اس تالاب کا پانی بدل دو،
یہ کنول کے پھول کمھلانے لگے ہیں ۔

وو سلیبوں کے قریب آئے تو ہمکو،
کایدے-قانون سمجھانے لگے ہیں ۔

ایک قبرستان میں گھر مل رہا ہے،
جسمیں تہخانوں سے تہخانے لگے ہیں ۔

مچھلیوں میں کھلبلی ہے، اب سفینے،
اس طرف جانے سے کترانے لگے ہیں ۔

مولوی سے ڈانٹ کھاکر اہلِ مکتب،
پھر اسی آیت کو دوہرانے لگے ہیں ۔

اب نیی تہذیب کے پیشے-نظرے ہم،
آدمی کو بھونکر خانے لگے ہیں ۔

(منظر=نظارے، سفینے=کشتیاں، اہلِ مکتب=ودیارتھی)

3. یہ سارا جسم جھککر بوجھ سے دوہرا ہوا ہوگا

یہ سارا جسم جھککر بوجھ سے دوہرا ہوا ہوگا،
میں سجدے میں نہیں تھا، آپکو دھوکھا ہوا ہوگا ۔

یہاں تک اعتے-اعتے سوکھ جاتی ہیں کئی ندیاں،
مجھے معلوم ہے پانی کہاں ٹھہرا ہوا ہوگا ۔

غضب یہ ہے کہ اپنی موت کی آہٹ نہیں سنتے،
وو سب-کے-سب پریشاں ہیں وہاں پر کیا ہوا ہوگا ۔

تمہارے شہر میں یہ شور سن-سنکر تو لگتا ہے،
کہ انسانوں کے جنگل میں کوئی ہانکا ہوا ہوگا ۔

کئی فاقے بتاکر مر گیا، جو اسکے بارے میں،
وو سب کہتے ہیں اب، ایسا نہیں، ایسا ہوا ہوگا ۔

یہاں تو صرف گونگے اور بہرے لوگ بستے ہیں،
خدا جانے یہاں پر کس ترہ جلسہ ہوا ہوگا ۔

چلو، اب یادگاروں کی اندھیری کوٹھری کھولیں،
کم-از-کم ایک وو چہرا تو پہچانا ہوا ہوگا ۔

4. اس ندی کی دھار میں ٹھنڈی ہوا آتی تو ہے

اس ندی کی دھار میں ٹھنڈی ہوا آتی تو ہے،
ناوَ جرجر ہی صحیح، لہروں سے ٹکراتی تو ہے ۔

ایک چنگاری کہیں سے ڈھونڈھ لاؤ دوست،
اس دیے میں تیل سے بھیگی ہئی باتی تو ہے ۔

اس کھنڈہر کے ہردی-سیدی، ایک جنگلی پھول-سیل،
آدمی کی پیر گونگی ہی صحیح، گاتی تو ہے ۔

ایک چادر سانجھ نے سارے نگر پر ڈال دی،
یہ اندھیرے کی سڑک اس بھور تک جاتی تو ہے ۔

نروچن میدان میں لیٹی ہئی ہے جو ندی،
پتھروں سے، اوٹ میں جو جاکے بتیاتی تو ہے ۔

دکھ نہیں کوئی کہ اب اپلبدھیوں کے نام پر،
اور کچھ ہو یا ن ہو، آکاش-سیاش چھاتی تو ہے ۔

(بھور=سویر، اپلبدھیوں=پراپتیاں)

5. دیکھ، دہلیج سے کائی نہیں جانے والی

دیکھ، دہلیج سے کائی نہیں جانے والی،
یہ خطرناک سچائی نہیں جانے والی ۔

کتنا اچھا ہے کہ سانسوں کی ہوا لگتی ہے،
آگ اب انسے بجھائی نہیں جانے والی ۔

ایک تالاب-سیلاب بھر جاتی ہے ہر بارش میں،
میں سمجھتا ہوں یہ کھائی نہیں جانے والی ۔

چیخ نکلی تو ہے ہونٹھوں سے، مگر مدھم ہے،
بند کمروں کو سنائی نہیں جانے والی ۔

تو پریشان بہت ہے، تو پریشان ن ہو،
ان خداؤں کی خدائی نہیں جانے والی ۔

آج سڑکوں پے چلے آؤ تو دل بہلیگا،
چند غزلوں سے تنہائی نہیں جانے والی ۔

6. کھنڈہر بچے ہئے ہیں، عمارت نہیں رہی

کھنڈہر بچے ہئے ہیں، عمارت نہیں رہی،
اچھا ہوا کہ سر پے کوئی چھت نہیں رہی ۔

کیسی مشالیں لیکے چلے تیرگی میں آپ،
جو روشنی تھی وو بھی سلامت نہیں رہی ۔

ہمنے تمام عمر اکیلے سفر کیا،
ہم پر کسی خدا کی عنایت نہیں رہی ۔

میرے چمن میں کوئی نشیمن نہیں رہا،
یا یوں کہو کہ برق کی دہشت نہیں رہی ۔

ہمکو پتہ نہیں تھا ہمیں اب پتہ چلا،
اس ملک میں ہماری ہکومت نہیں رہی ۔

کچھ دوستوں سے ویسے مراسم نہیں رہے،
کچھ دشمنوں سے ویسی عداوت نہیں رہی ۔

ہمت سے سچ کہو تو برا مانتے ہیں لوگ،
رو-رو کے بات کہنے کی عادت نہیں رہی ۔

سینے میں زندگی کے علامات ہیں ابھی،
گو زندگی کی کوئی ضرورت نہیں رہی ۔

(تیرگی=ہنیرا، عنایت=میہربانی، نشیمن=آلھنا، برق=بجلی،
مراسم=سنبندھ، عداوت=دشمنی، علامات=لچھن، گو=بھاویں)

7. پرندے اب بھی پر تولے ہئے ہیں

پرندے اب بھی پر تولے ہئے ہیں،
ہوا میں سنسنی گھولے ہئے ہیں ۔

تمہیں کمزور پڑتے جا رہے ہو،
تمہارے خواب تو شولے ہئے ہیں ۔

غضب ہے سچ کو سچ کہتے نہیں وو،
کرانو-اپنشد کھولے ہئے ہیں ۔

مزاروں سے دعائیں مانگتے ہو،
عقیدے کس قدر پولے ہئے ہیں ۔

ہمارے ہاتھ تو کاٹے گئے تھے،
ہمارے پانو بھی چھولے ہئے ہیں ۔

کبھی کشتی، کبھی بطخ، کبھی جل،
سیاست کے کئی چولے ہئے ہیں ۔

ہمارا کد سمٹ کر گھنٹ (گھٹ) گیا ہے،
ہمارے پیرہن جھولے ہئے ہیں ۔

چڑھاتا پھر رہا ہوں جو چڑھاوے،
تمہارے نام پر بولے ہئے ہیں ۔

(پیرہن=کپڑے)

8. اپاہج ویتھا کو وہن کر رہا ہوں

اپاہج ویتھا کو وہن کر رہا ہوں،
تمہاری کہن تھی، کہن کر رہا ہوں ۔

یہ دروازہ کھولو تو کھلتا نہیں ہے،
اسے توڑنے کا یتن کر رہا ہوں ۔

اندھیرے میں کچھ زندگی ہوم کر دی،
اجالے میں اب یہ ہون کر رہا ہوں ۔

وے سنبندھ اب تک بحث میں ٹنگے ہیں،
جنہیں رات-دن سمرن کر رہا ہوں ۔

تمہاری تھکن نے مجھے توڑ ڈالا،
تمہیں کیا پتہ کیا صحن کر رہا ہوں ۔

میں اہساس تک بھر گیا ہوں لبالب،
تیرے آنسوؤں کو نمن کر رہا ہوں ۔

سمالوچکوں کی دعا ہے کہ میں پھر،
صحیح شام سے آچمن کر رہا ہوں ۔

9. بھوکھ ہے تو صبر کر، روٹی نہیں تو کیا ہوا

بھوکھ ہے تو صبر کر، روٹی نہیں تو کیا ہوا،
آجکل دلی میں ہے زیرے بحث یہ مدآ ۔

موت نے تو دھر دبوچا ایک چیتے کی ترہ،
زندگی نے جب چھوا فاصلہ رکھکر چھوا ۔

گڑگڑانے کا یہاں کوئی اثر ہوتا نہیں،
پیٹ بھرکر گالیاں دو، آہ بھرکر بددوا ۔

کیا وجہ ہے پیاس زیادا تیز لگتی ہے یہاں،
لوگ کہتے ہیں کہ پہلے اس جگہ پر تھا کواں ۔

آپ دستانے پہن کر چھو رہے ہیں آگ کو،
آپکے بھی خون کا رنگ ہو گیا ہے سانولا ۔

اس انگیٹھی تک گلی سے کچھ ہوا آنے تو دو،
جب تلک کھلتے(جلتے) نہیں، یہ کویلے دینگے دھواں ۔

دوست، اپنے ملک کی قسمت پے رنجیدہ ن ہو،
انکے ہاتھوں میں ہے پنجرہ، انکے پنجرے میں سوا ۔

اس شہر میں ہو کوئی بارات ہو یا واردات،
اب کسی بھی بات پر کھلتی نہیں ہیں کھڑکیاں ۔

(رنجیدہ=دکھی، سوا=طوطا)

10. پھر دھیرے-دھیرے یہاں کا موسم بدلنے لگا ہے

پھر دھیرے-دھیرے یہاں کا موسم بدلنے لگا ہے،
واتاورن سو رہا تھا اب آنکھ ملنے لگا ہے ۔

پچھلے سفر کی ن پوچھو، ٹوٹا ہوا ایک رتھ ہے،
جو رک گیا تھا کہیں پر، پھر ساتھ چلنے لگا ہے ۔

ہمکو پتہ بھی نہیں تھا، وو آگ ٹھنڈی پڑی تھی،
جس آگ پر آج پانی سہسا ابلنے لگا ہے ۔

جو آدمی مر چکے تھے، موجود ہیں اس سبھا میں،
ہر ایک سچ کلپنا سے آگے نکلنے لگا ہے ۔

یہ گھوشنا ہو چکی ہے، میلہ لگیگا یہاں پر،
ہر آدمی گھر پہنچکر، کپڑے بدلنے لگا ہے ۔

باتیں بہت ہو رہی ہیں، میرے-تمہارے وشی میں،
جو راستے میں کھڑا تھا پروت پگھلنے لگا ہے ۔

11. کہیں پے دھوپ کی چادر بچھاکے بیٹھ گئے

کہیں پے دھوپ کی چادر بچھاکے بیٹھ گئے،
کہیں پے شام سرہانے لگا کے بیٹھ گئے ۔

جلے جو ریت میں تلوے تو ہمنے یہ دیکھا،
بہت-سیت لوگ وہیں چھٹپٹاکے بیٹھ گئے ۔

کھڑے ہئے تھے الاووں کی آنچ لینے کو،
سب اپنی اپنی ہتھیلی جلاکے بیٹھ گئے ۔

دوکاندار تو میلے میں لٹ گئے یارو !
تماشبین دکانیں لگاکے بیٹھ گئے ۔

لہو-لہان نظروں کا ذکر آیا تو،
شریف لوگ اٹھے دور جاکے بیٹھ گئے ۔

یہ سوچکر کہ درختوں میں چھانو ہوتی ہے،
یہاں ببول کے سایے میں آکے بیٹھ گئے ۔

12. گھنٹییوں کی گونج کانوں تک پہنچتی ہے

گھنٹییوں کی گونج کانوں تک پہنچتی ہے،
ایک ندی جیسے دہانوں تک پہنچتی ہے ۔

اب اسے کیا نام دیں، یہ بیل دیکھو تو،
کلھ اگی تھی آج شانوں تک پہنچتی ہے ۔

کھڑکییاں، ناچیز گلییوں سے مخاطب ہیں،
اب لپٹ شاید مکانوں تک پہنچتی ہے ۔

آشییانے کو سجاؤ تو سمجھ لینا،
برق کیسے آشییانوں تک پہنچتی ہے ۔

تم ہمیشہ بدہواسی میں گزرتے ہو،
بات اپنوں سے بگانوں تک پہنچتی ہے ۔

صرف آنکھیں ہی بچی ہیں چند چیہروں میں،
بیزباں صورتَ، جبانوں تک پہنچتی ہے ۔

اب موذن کی صدائیں کون سنتا ہے،
چیخ-چلاہٹ ازانوں تک پہنچتی ہے ۔

13. نظر-نواز نظارہ بدل ن جائے کہیں

نظر-نواز نظارہ بدل ن جائے کہیں،
ذرا-سیا بات ہے منہ سے نکل ن جائے کہیں ۔

وو دیکھتے ہیں تو لگتا ہے نینو ہلتی ہے،
میرے بیان کو بندش نگل ن جائے کہیں ۔

یوں مجھکو خود پے بہت اعتبار ہے لیکن،
یہ برف آنچ کے آگے پگھل ن جائے کہیں ۔

چلے ہوا تو کواڑوں کو بند کر لینا،
یہ گرم راکھ شراروں میں ڈھل ن جائے کہیں ۔

تمام رات تیرے میکدے میں می پی ہے،
تمام عمر نشے میں نکل ن جائے کہیں ۔

کبھی مچان پے چڑھنے کی آرزو ابھری،
کبھی یہ ڈر کہ یہ سیڑھی پھسل ن جائے کہیں ۔

یہ لوگ ہومو-ہونو میں یقین رکھتے ہیں،
چلو یہاں سے چلیں، ہاتھ جل ن جائے کہیں ۔

14. تونے یہ ہرسنگار ہلاکر برا کییا

تونے یہ ہرسنگار ہلاکر برا کییا،
پانووں کی سب زمین کو پھلوں سے ڈھنک لییا ۔

کسسے کہیں کہ چھت کی منڈیروں سے گر پڑے،
ہمنے ہی خود پتنگ اڑائی تھی شوکییا ۔

اب سب سے پوچھتا ہوں بتاؤ تو کون تھا،
وو بدنصیب شخص جو میری جگہ جییا ۔

منہ کو ہتھیلییوں میں چھپانے کی بات ہے،
ہمنے کسی انگار کو ہونٹھوں سے چھو لییا ۔

گھر سے چلے تو راہ میں آکر ٹھٹھک گئے،
پوری ہوئی ردیف ادھورا ہے کافییا ۔

میں بھی تو اپنی بات لکھوں اپنے ہاتھ سے،
میرے صفے پے چھوڑ دے تھوڑا سا ہاشییا ۔

اس دل کی بات کر تو سبھی درد مت انڈیل،
اب لوگ ٹوکتے ہیں غزل ہے کہ مرسییا ۔

15. مت کہو، اکاش میں کوہرا گھنا ہے

مت کہو، اکاش میں کوہرا گھنا ہے،
یہ کسی کی ویکتیگت آلوچنا ہے ۔

سوری ہمنے بھی نہیں دیکھا صبح سے،
کیا کروگے، سوری کا کیا دیکھنا ہے ۔

اس سڑک پر اس قدر کیچڑ بچھی ہے،
ہر کسی کا پانو گھٹنوں تک ثنائ ہے ۔

پکش ؤ' پرتیپکش سنسد میں مکھر ہیں،
بات اتنی ہے کہ کوئی پل بنا ہے ۔

رقت ورشوں سے نسوں میں کھولتا ہے،
آپ کہتے ہیں کشنک اتیجنا ہے ۔

ہو گئی ہر گھاٹ پر پوری ویوستھا،
شوق سے ڈوبے جسے بھی ڈوبنا ہے ۔

دوستو ! اب منچ پر سودھا نہیں ہے،
آجکل نیپتھی میں سمبھاونا ہے ۔

16. چاندنی چھت پے چل رہی ہوگی

چاندنی چھت پے چل رہی ہوگی،
اب اکیلی ٹہل رہی ہوگی ۔

پھر میرا ذکر آ گیا ہوگا،
وو برف-سیف پگھل رہی ہوگی ۔

کلھ کا سپنا بہت سہانا تھا،
یہ اداسی نہ کلھ رہی ہوگی ۔

سوچتا ہوں کہ بند کمرے میں،
ایک شما-سیا جل رہی ہوگی ۔

شہر کی بھیڑ-بھاڑ سے بچکر،
تو گلی سے نکل رہی ہوگی ۔

آج بنیاد تھرتھراتی ہے،
وو دعا پھول-پھلل رہی ہوگی ۔

تیرے گہنوں-سینوں کھنکھناتی تھی،
بازرے کی فصل رہی ہوگی ۔

جن ہواؤں نے تجھکو دلرایا،
انمیں میری غزل رہی ہوگی ۔

17. یہ روشنی ہے حقیقت میں ایک چھل لوگو

یہ روشنی ہے حقیقت میں ایک چھل لوگو،
کہ جیسے جل میں جھلکتا ہوا محل لوگو

درخت ہیں تو پرندے نظر نہیں اعتے،
جو مستہک ہیں وحی ہک سے بے دخل لوگو ۔

وو گھر میں میز پے کوہنی ٹکایے بیٹھی ہے،
تھمی ہئی ہے وہیں عمر آجکل لوگو ۔

کسی بھی قوم کی تاریخ کے اجالے میں،
تمہارے دن ہیں کسی رات کی نقل لوگو ۔

تمام رات رہا مہوے-خواب دیوانہ،
کسی کی نیند میں پڑتا رہا خلل، لوگو ۔

ضرور وو بھی اسی راستے سے گزرے ہیں،
ہر آدمی مجھے لگتا ہے ہم-شکل لوگو ۔

دکھے جو پانو کے تازہ نشان صحرا میں،
تو یاد آئے ہیں تالاب کے کنول لوگو ۔

وے کہ رہے ہیں غزل گو نہیں رہے شایر،
میں سن رہا ہوں ہریک سمت سے غزل لوگو ۔

18. ہو گئی ہے پیر پروت-سیوت پگھلنی چاہیئے

ہو گئی ہے پیر پروت-سیوت پگھلنی چاہیئے،
اس ہمالی سے کوئی گنگا نکلنی چاہیئے ۔

آج یہ دیوار، پردوں کی ترہ ہلنے لگی،
شرط لیکن تھی کہ بنیاد ہلنی چاہیئے ۔

ہر سڑک پر، ہر گلی میں، ہر نگر، ہر گانو میں،
ہاتھ لہراتے ہئے ہر لاش چلنی چاہیئے ۔

صرف ہنگامہ کھڑا کرنا میرا مقصد نہیں،
میری کوشش ہے کہ یہ صورتَ بدلنی چاہیئے ۔

میرے سینے میں نہیں تو تیرے سینے میں صحیح،
ہو کہیں بھی آگ، لیکن آگ جلنی چاہیئے ۔

19. آج سڑکوں پر لکھے ہیں سینکڑوں نعرے ن دیکھ

آج سڑکوں پر لکھے ہیں سینکڑوں نعرے ن دیکھ،
گھر اندھیرا دیکھ تو، آکاش کے تارے ن دیکھ ۔

ایک درییا ہے یہاں پر دور تک پھیلا ہوا،
آج اپنے باجؤں کو دیکھ، پتواریں ن دیکھ ۔

اب یکیکن ٹھوس ہے دھرتی حقیقت کی ترہ،
یہ حقیقت دیکھ لیکن خوف کے مارے ن دیکھ ۔

وے سہارے بھی نہیں اب، جنگ لڑنی ہے تجھے،
کٹ چکے جو ہاتھ، ان ہاتھوں میں تلواریں ن دیکھ ۔

دل کو بہلا لے، اجازت ہے، مگر اتنا ن اڑ،
روز سپنے دیکھ، لیکن اس قدر پیارے ن دیکھ ۔

یہ دھندھلکا ہے نظر کا، تو مہز مایوس ہے،
روجنوں کو دیکھ، دیواروں میں دیواریں ن دیکھ ۔

راکھ، کتنی راکھ ہے، چاروں طرف بکھری ہئی،
راکھ میں چنگارییاں ہی دیکھ، انگارے ن دیکھ ۔

20. مرنا لگا رہے گا یہاں جی تو لیجیئے

مرنا لگا رہے گا یہاں جی تو لیجیئے،
ایسا بھی کیا پرہیز، ذرا-سیا تو لیجیئے۔

اب رند بچ رہے ہیں ذرا تیز رقص ہو،
مہفل سے اٹھ لیے ہیں نمازی تو لیجیئے۔

پتوں سے چاہتے ہو بجیں ساز کی ترہ،
پیڑوں سے پہلے آپ اداسی تو لیجیئے ۔

خاموش رہ کے تمنے ہمارے سوال پر،
کر دی ہے شہر بھر میں منادی تو لیجیئے۔

یہ روشنی کا درد یہ سہرن، یہ آرزو،
یہ چیز زندگی میں نہیں تھی تو لیجیئے۔

پھرتا ہے کیسے کیسے خیالوں کے ساتھ وو،
اس آدمی کی جاماتلاشی تو لیجیئے۔

21. پرانے پڑ گئے ڈر، پھینک دو تم بھی

پرانے پڑ گئے ڈر، پھینک دو تم بھی،
یہ کچرا آج باہر پھینک دو تم بھی ۔

لپٹ آنے لگی ہے اب ہواؤں میں،
اوسارے اور چھپر پھینک دو تم بھی ۔

یہاں معصوم سپنے جی نہیں پاتے،
انھیں کنکم لگا کر پھینک دو تم بھی ۔

تمہیں بھی اس بہانے یاد کر لینگے،
ادھر دو-چار پتھر پھینک دو تم بھی ۔

یہ مورت بول سکتی ہے اگر چاہو،
اگر کچھ شبد کچھ سور پھینک دو تم بھی ۔

کسی سنویدنا کے کام آئینگے،
یہاں ٹوٹے ہئے پر پھینک دو تم بھی ۔

22. اس راستے کے نام لکھو ایک شام اور

اس راستے کے نام لکھو ایک شام اور،
یا اسمیں روشنی کا کرو انتظام اور ۔

آندھی میں صرف ہم ہی اکھڑکر نہیں گرے،
ہمسے جڑا ہوا تھا کوئی ایک نام اور ۔

مرگھٹ پے بھیڑ ہے یا مزاروں پے بھیڑ ہے،
اب گل کھلا رہا ہے تمہارا نظام اور ۔

گھٹنوں پے رکھ کے ہاتھ کھڑے تھے نماز میں،
آ-جا رہے تھے لوگ زیہن میں تمام اور ۔

ہمنے بھی پہلی بار چکھی تو بری لگی،
کڑوی تمہیں لگیگی مگر ایک جام اور ۔

ہیراں تھے اپنے عکس پے گھر کے تمام لوگ،
شیشہ چٹکھ گیا تو ہوا ایک کام اور ۔

انکا کہیں جہاں میں ٹھکانا نہیں رہا،
ہمکو تو مل گیا ہے ادب میں مقام اور ۔

23. میرے گیت تمہارے پاس سہارا پانے آئینگے

میرے گیت تمہارے پاس سہارا پانے آئینگے،
میرے بعد تمہیں یہ میری یاد دلانے آئینگے ۔

ہولے-ہولے پانو ہلاؤ، جل سویا ہے چھیڑو مت،
ہم سب اپنے-اپنے دیپک یہیں سرانے آئینگے ۔

تھوڑی آنچ بنی رہنے دو، تھوڑا دھواں نکلنے دو،
کلھ دیکھوگی کئی مسافر اسی بہانے آئینگے ۔

انکو کیا معلوم وروپت اس سکتا پر کیا بیتی،
وے آئے تو یہاں شنکھ سیپییاں اٹھانے آئینگے ۔

رہ-رہ آنکھوں میں چبھتی ہے پتھ کی نرجن دوپہری،
آگے اور بڑھیں تو شاید درشی سہانے آئینگے ۔

میلے میں بھٹکے ہوتے تو کوئی گھر پہنچا جاتا،
ہم گھر میں بھٹکے ہیں، کیسے ٹھور-ٹھکانے آئینگے ۔

ہم کیا بولیں اس آندھی میں کئی گھروندے ٹوٹ گئے،
ان اسپھل نرمتییوں کے شو کلھ پہچانے جائینگے ۔

24. آج ویران اپنا گھر دیکھا

آج ویران اپنا گھر دیکھا،
تو کئی بار جھانک کر دیکھا ۔

پانو ٹوٹے ہئے نظر آئے،
ایک ٹھہرا ہوا سفر دیکھا ۔

ہوش میں آ گئے کئی سپنے،
آج ہمنے وو کھنڈہر دیکھا ۔

راستا کاٹکر گئی بلی،
پیار سے راستا اگر دیکھا ۔

نالییوں میں حیات دیکھی ہے،
گالییوں میں بڑا اثر دیکھا ۔

اس پرندے کو چوٹ آئی تو،
آپنے ایک-ایک پر دیکھا ۔

ہم کھڑے تھے کہ یہ جمیں ہوگی،
چل پڑی تو ادھر ادھر دیکھا ۔

25. وو نگاہیں صلیب ہیں

وو نگاہیں صلیب ہیں،
ہم بہت بدنصیب ہیں ۔

آئیے آنکھ موند لیں،
یہ نظارے عجیب ہیں ۔

زندگی ایک کھیت ہے،
اور سانسیں جریب ہیں ۔

سلسلے ختم ہو گئے،
یار اب بھی رقیب ہیں ۔

ہم کہیں کے نہیں رہے،
گھاٹ ؤ' گھر قریب ہیں ۔

آپنے لو چھئی نہیں،
آپ کیسے ادیب ہیں ۔

اف نہیں کی اجڑ گئے،
لوگ سچ مچ غریب ہیں ۔

26. باییں سے اڑکے دائیں دشا کو گرڑ گیا

باییں سے اڑکے دائیں دشا کو گرڑ گیا،
کیسا شکن ہوا کہ برگد اکھڑ گیا ۔

ان کھنڈہروں میں ہونگی تیری سسکییاں ضرور،
ان کھنڈہروں کی اور سفر آپ مڑ گیا ۔

بچے چھلانگ مارکے آگے نکل گئے،
ریلے میں پھنسکے باپ بچارا بچھڑ گیا ۔

دکھ کو بہت سہیج کے رکھنا پڑا ہمیں،
سکھ تو کسی کپور کی ٹکییا-ساییا اڑ گیا ۔

لیکر امنگ سنگ چلے تھے ہنسی-کھشی،
پہنچے ندی کے گھاٹ تو میلہ اجڑ گیا ۔

جن آنسوؤں کا سیدھا تعلقات تھا پیٹ سے،
ان آنسوؤں کے ساتھ تیرا نام جڑ گیا ۔

27. افواہ ہے یا سچ ہے یہ کوئی نہیں بولا

افواہ ہے یا سچ ہے یہ کوئی نہیں بولا،
میننے بھی سنا ہے اب جائیگا تیرا ڈولا ۔

ان راستوں کے پتھر بھی مانوس تھے پانووں سے،
پر میننے پکارا تو کوئی بھی نہیں بولا ۔

لگتا ہے، خدائی میں کچھ تیرا دخل بھی ہے،
اس شام فزاؤں نے وو رنگ نہیں گھولا ۔

آخر تو اندھیرے کی جاگیر نہیں ہوں میں،
اس راکھ میں پنہا ہے اب تک بھی وحی شعلہ ۔

سوچا کہ تو سوچیگی، تونے کسی شایر کی،
دستک تو سنی تھی پر دروازہ نہیں کھولا ۔

28. اگر خدا ن کرے سچ یہ خواب ہو جائے

اگر خدا ن کرے سچ یہ خواب ہو جائے،
تیری سحر ہو میرا آفتاب ہو جائے ۔

ہزور آرزو-رخسار کیا تمام بدن،
میری سنو تو مجسم گلاب ہو جائے ۔

اٹھاکے پھینک دو کھڑکی سے ساغرو-میناو،
یہ تشنگی جو تمہیں دستیاب ہو جائے ۔

وو بات کتنی بھلی ہے جو آپ کرتے ہیں،
سنی تو سینے کی دھڑکن رباب ہو جائے ۔

بہت قریب ن آؤ یقیں نہیں ہوگا،
یہ آرزو بھی اگر کامیاب ہو جائے ۔

غلط کہوں تو میری عاقبت بگڑتی ہے،
جو سچ کہوں تو خودی بے نقاب ہو جائے ۔

29. زندگانی کا کوئی مقصد نہیں ہے

زندگانی کا کوئی مقصد نہیں ہے،
ایک بھی کد آج آدمکد نہیں ہے ۔

رام جانے کس جگہ ہونگے کبوتر،
اس عمارت میں کوئی گمبد نہیں ہے ۔

اپسے ملکر ہمیں اکثر لگا ہے،
حسن میں اب ججبا-اے-امجد نہیں ہے ۔

پیڑ-پودھے ہیں بہت بونے تمہارے،
راستوں میں ایک بھی برگد نہیں ہے ۔

میکدے کا راستا اب بھی کھلا ہے،
صرف آمدرفت ہی جاید نہیں ہے ۔

اس چمن کو دیکھکر کسنے کہا تھا،
ایک پنچھی بھی یہاں شاید نہیں ہے ۔

30. یہ سچ ہے پانووں نے بہت کشٹ اٹھائے

یہ سچ ہے پانووں نے بہت کشٹ اٹھائے،
پر پانو کسی ترہ سے راہوں پے تو آئے،

ہاتھوں میں انگاروں کو لیے سوچ رہا تھا،
کوئی مجھے انگاروں کی تاثیر بتائے ۔

جیسے کسی بچے کو کھلونے نہ ملے ہوں،
پھرتا ہوں کئی یادوں کو سینے سے لگائے ۔

چٹانوں سے پانو کو بچاکر نہیں چلتے،
سہمے ہئے پانووں سے لپٹ جاتے ہیں سائے ۔

یوں پہلے بھی اپنا-سانا یہاں کچھ تو نہیں تھا،
اب اور نظارے ہمیں لگتے ہیں پرائے ۔

31. باڑھ کی سمبھاونائیں سامنے ہیں

باڑھ کی سمبھاونائیں سامنے ہیں،
اور ندییوں کے کنارے گھر بنے ہیں ۔

چیڑ-ونڑ میں آندھییوں کی بات مت کر،
ان درختوں کے بہت ناجک تنے ہیں ۔

اس ترہ ٹوٹے ہئے چہرے نہیں ہیں،
جس ترہ ٹوٹے ہئے یہ آئینے ہیں ۔

آپکے قالین دیکھینگے کسی دن،
اس سمی تو پانو کیچڑ میں سنے ہیں ۔

جس ترہ چاہے بجاؤ اس سبھا میں،
ہم نہیں ہیں آدمی، ہم جھنجھنے ہیں ۔

اب تڑپتی-سیپتی غزل کوئی سنائے،
ہم سفر اونگھے ہئے ہیں، انمنے ہیں ۔

32. جانے کس-کسکا خیال آیا ہے

جانے کس-کسکا خیال آیا ہے،
اس سمندر میں ابال آیا ہے ۔

ایک بچہ تھا ہوا کا جھونکا،
صاف پانی کو کھنگال آیا ہے ۔

ایک ڈھیلا تو وہیں اٹکا تھا،
ایک تو اور اچھال آیا ہے ۔

کلھ تو نکلا تھا بہت سجدھج کے،
آج لوٹا تو نڈھال آیا ہے ۔

یہ نظر ہے کہ کوئی موسم ہے،
یہ صبا ہے کہ وبال آیا ہے ۔

اس اندھیرے میں دییا رکھنا تھا،
تو اجالے میں ہی بال آیا ہے ۔

ہمنے سوچا تھا جواب آئیگا،
ایک بے ہودہ سوال آیا ہے ۔

33. یہ جباں ہمسے سی نہیں جاتی

یہ جباں ہمسے سی نہیں جاتی،
زندگی ہے کہ جی نہیں جاتی ۔

ان سفیلوں میں وو دراریں ہیں،
جنمیں بسکر نمی نہیں جاتی ۔

دیکھئے اس طرف اجالا ہے،
جس طرف روشنی نہیں جاتی ۔

شام کچھ پیڑ گر گئے ورنہ،
بام تک چاندنی نہیں جاتی ۔

ایک عادت-سیت بن گئی ہے تو،
اور عادت کبھی نہیں جاتی ۔

میکشو می ضرور ہے لیکن،
اتنی کڑوی کہ پی نہیں جاتی ۔

مجھکو عیسیٰ بنا دیا تمنے،
اب شکایت بھی کی نہیں جاتی ۔

34. تمکو نہارتا ہوں صبح سے رتمبرا

تمکو نہارتا ہوں صبح سے رتمبرا،
اب شام ہو رہی ہے مگر من نہیں بھرا ۔

خرگوش بن کے دوڑ رہے ہیں تمام خواب،
پھرتا ہے چاندنی میں کوئی سچ ڈرا-ڈرا ۔

پودھے جھلس گئے ہیں مگر ایک بات ہے،
میری نظر میں اب بھی چمن ہے ہرا-ہرا ۔

لمبی سرنگ-سیرنگ ہے تیری زندگی تو بول،
میں جس جگہ کھڑا ہوں وہاں ہے کوئی سرا ۔

ماتھے پے رکھکے ہاتھ بہت سوچتے ہو تم،
گنگا قسم بتاؤ ہمیں کیا ہے ماجرہ ۔

35. روز جب رات کو بارہ کا گجر ہوتا ہے

روز جب رات کو بارہ کا گجر ہوتا ہے،
یاتناؤں کے اندھیرے میں سفر ہوتا ہے ۔

کوئی رہنے کی جگہ ہے میرے سپنوں کے لیئے،
وو گھروندا صحیح، مٹی کا بھی گھر ہوتا ہے ۔

سر سے سینے میں کبھی، پیٹ سے پانو میں کبھی،
ایک جگہ ہو تو کہیں درد ادھر ہوتا ہے ۔

ایسا لگتا ہے کہ اڑکر بھی کہاں پہنچینگے،
ہاتھ میں جب کوئی ٹوٹا ہوا پر ہوتا ہے ۔

سیر کے واسطے سڑکوں پے نکل اعتے تھے،
اب تو آکاش سے پتھراو کا ڈر ہوتا ہے ۔

36. حالاتِ جسم سورتے جاں، اور بھی خراب

حالاتِ جسم سورتے جاں، اور بھی خراب،
چاروں طرف خراب، یہاں اور بھی خراب ۔

نظروں میں آ رہے ہیں نظارے بہت برے،
ہونٹھوں میں آ رہی ہے جباں اور بھی خراب ۔

پابند ہو رہی ہے روایت سے روشنی،
چمنی میں گھٹ رہا ہے دھواں اور بھی خراب ۔

مورت سنوارنے میں بگڑتی چلی گئی،
پہلے سے ہو گیا ہے جہاں اور بھی خراب ۔

روشن ہئے چراغ تو آنکھیں نہیں رہیں،
اندھوں کو روشنی کا گماں اور بھی خراب ۔

آگے نکل گئے ہیں گھسٹتے ہئے قدم،
راہوں میں رہ گئے ہیں نشاں اور بھی خراب ۔

سوچا تھا انکے دیش میں مہنگی ہے زندگی،
پر زندگی کا بھاوَ وہاں اور بھی خراب ۔

37. یہ جو شہتیر ہے پلکوں پے اٹھا لو یارو

یہ جو شہتیر ہے پلکوں پے اٹھا لو یارو،
اب کوئی ایسا طریقہ بھی نکالو یارو ۔

دردے دل وقت کو پیغام بھی پہنچائیگا،
اس کبوتر کو ذرا پیار سے پالو یارو ۔

لوگ ہاتھوں میں لیے بیٹھے ہیں اپنے پنجرے،
آج صیاد کو مہفل میں بلا لو یارو ۔

آج سیون کو ادھیڑو تو ذرا دیکھینگے،
آج صندوق سے وے خط تو نکالو یارو ۔

رہنماؤں کی ادا پے فدا ہے دنییا،
اس بہکتی ہئی دنییا کو سمبھالو یارو ۔

کیسے آکاش میں سوراخ نہیں ہو سکتا،
ایک پتھر تو تبییت سے اچھالو یارو ۔

لوگ کہتے تھے کہ یہ بات نہیں کہنے کی،
تمنے کہ دی ہے تو کہنے کی سزا لو یارو ۔

38. دھوپ یہ اٹھکھیلییاں ہر روز کرتی ہے

دھوپ یہ اٹھکھیلییاں ہر روز کرتی ہے،
ایک چھایا سیڑھییاں چڑھتی-اترتی ہے ۔

یہ دییا چوراستے کا اوٹ میں لے لو،
آج آندھی گانو سے ہوکر گزرتی ہے ۔

کچھ بہت گہری دراریں پڑ گییں من میں،
میت اب یہ من نہیں ہے ایک دھرتی ہے ۔

کون شاسن سے کہیگا، کون سمجھیگا،
ایک چڑییا ان دھماکوں سے سہرتی ہے ۔

میں تمہیں چھوکر ذرا-ساا چھیڑ دیتا ہوں،
اور گیلی پانکھری سے اوس جھرتی ہے ۔

تم کہیں پر جھیل ہو، میں ایک نوکا ہوں،
اس ترہ کی کلپنا من میں ابھرتی ہے ۔

39. پک گئی ہیں آدتیں، باتوں سے سر ہونگی نہیں

پک گئی ہیں آدتیں، باتوں سے سر ہونگی نہیں،
کوئی ہنگامہ کرو، ایسے گزر ہوگی نہیں ۔

ان ٹھٹھرتی انگلییوں کو اس لپٹ پر سینک لو،
دھوپ اب گھر کی کسی دیوار پر ہوگی نہیں ۔

بوند ٹپکی تھی مگر وو بوندو-بارش اور ہے،
ایسی بارش کی کبھی انکو خبر ہوگی نہیں ۔

آج میرا ساتھ دو، ویسے مجھے معلوم ہے،
پتھروں میں چیخ ہرگز کارگر ہوگی نہیں ۔

آپکے ٹکڑوں کے ٹکڑے کر دئے جائینگے پر،
آپکی تعظیم میں کوئی قصر ہوگی نہیں ۔

صرف شایر دیکھتا ہے کہکہوں کی اسلییت،
ہر کسی کے پاس تو ایسی نظر ہوگی نہیں ۔

40. ایک کبوتر، چٹھی لیکر، پہلی-پہلی بار اڑا

ایک کبوتر، چٹھی لیکر، پہلی-پہلی بار اڑا،
موسم ایک غلیل لیے تھا پٹ سے نیچے آن گرا ۔

بنجر دھرتی، جھلسے پودھے، بکھرے کانٹے، تیز ہوا،
ہمنے گھر بیٹھے-بیٹھے ہی سارا منظر دیکھ لییا ۔

چٹانوں پر کھڑا ہوا تو چھاپ رہ گئی پانووں کی،
سوچو کتنا بوجھ اٹھاکر میں ان راہوں سے گزرا ۔

سہنے کو ہو گیا اکٹھا اتنا سارا دکھ من میں،
کہنے کو ہو گیا کہ دیکھو اب میں تمکو بھول گیا ۔

دھیرے-دھیرے بھیگ رہی ہیں ساری اینٹیں پانی میں،
انکو کیا معلوم کہ آگے چلکر انکا کیا ہوگا ۔

41. یہ دھئیں کا ایک گھیرا کہ میں جسمیں رہ رہا ہوں

یہ دھئیں کا ایک گھیرا کہ میں جسمیں رہ رہا ہوں،
مجھے کس قدر نیا ہے، میں جو درد سہ رہا ہوں ۔

یہ زمین تپ رہی تھی، یہ مکان تپ رہے تھے،
تیرا انتظار تھا جو میں اسی جگہ رہا ہوں ۔

میں ٹھٹھک گیا تھا لیکن تیرے ساتھ-ساتھ تھا میں،
تو اگر ندی ہئی تو میں تیری سطح رہا ہوں ۔

سر پے دھپ آئی تو درخت بن گیا میں،
تیری زندگی میں اکثر میں کوئی وجہ رہا ہوں ۔

کبھی دل میں آرزو-سازو، کبھی منہ میں بددوا-سادوا،
مجھے جس ترہ بھی چاہا، میں اسی ترہ رہا ہوں ۔

میرے دل پے ہاتھ رکھو، میری بے بسی کو سمجھو،
میں ادھر سے بن رہا ہوں، میں ادھر سے ڈھہ رہا ہوں ۔

یہاں کون دیکھتا ہے، یہاں کون سوچتا ہے،
کہ یہ بات کیا ہئی ہے جو میں شے'ر کہ رہا ہوں ۔

42. تمنے اس تالاب میں روہو پکڑنے کے لیئے

تمنے اس تالاب میں روہو پکڑنے کے لیئے،
چھوٹی-چھوٹی مچھلییاں چارہ بناکر پھینک دیں ۔

ہم ہی کھا لیتے صبح کو بھوکھ لگتی ہے بہت،
تمنے باسی روٹییاں اٹھاکر پھینک دیں ۔

جانے کیسی انگلییاں ہیں جانے کیا انداز ہیں،
تمنے پتوں کو چھوا تھا جڑ ہلاکر پھینک دی ۔

اس احاطے کے اندھیرے میں دھواں-سااں بھر گیا،
تمنے جلتی لکڑییاں شاید بجھاکر پھینک دیں ۔

43. لفظ ایہساس-سیساس چھانے لگے، یہ تو حد ہے

لفظ ایہساس-سیساس چھانے لگے، یہ تو حد ہے،
لفظ مانے بھی چھپانے لگے، یہ تو حد ہے ۔

آپ دیوار گرانے کے لیئے آئے تھے،
آپ دیوار اٹھانے لگے، یہ تو حد ہے ۔

خاموشی شور سے سنتے تھے کہ گھبراتی ہے،
خاموشی شور مچانے لگے، یہ تو حد ہے ۔

آدمی ہونٹھ چبائے تو سمجھ آتا ہے،
آدمی چھال چبانے لگے، یہ تو حد ہے ۔

جسم پہراووں میں چھپ جاتے تھے، پہراووں میں-
جسم ننگے نظر آنے لگے، یہ تو حد ہے ۔

لوگ تہزیبو-تمدن کے سلیقے سیکھیں،
لوگ روتے ہئے گانے لگے، یہ تو حد ہے ۔

44. یہ شفق، شام ہو رہی ہے اب

یہ شفق، شام ہو رہی ہے اب،
اور ہر گام ہو رہی ہے اب ۔

جس تباہی سے لوگ بچتے تھے،
وو سرے عامَ ہو رہی ہے اب ۔

ازمتے ملک اس سیاست کے،
ہاتھ نیلام ہو رہی ہے اب ۔

شب غنیمت تھی، لوگ کہتے ہیں،
صبح بدنام ہو رہی ہے اب ۔

جو کرن تھی کسی دریچے کی،
مرکزے بام ہو رہی ہے اب ۔

تشنہ-لبشنا تیری پھسپھساہٹ بھی،
ایک پیغام ہو رہی ہے اب ۔

45. ایک گڑییا کی کئی کٹھپتلییوں میں جان ہے

ایک گڑییا کی کئی کٹھپتلییوں میں جان ہے،
آج شایر، یہ تماشہ دیکھکر حیران ہے ۔

خاص سڑکیں بند ہیں تب سے مرمت کے لیئے،
یہ ہمارے وقت کی سب سے صحیح پہچان ہے ۔

ایک بوڑھا آدمی ہے ملک میں یا یوں کہو،
اس اندھیری کوٹھری میں ایک روشندان ہے ۔

مصلحت آمیز ہوتے ہیں سیاست کے قدم،
تو ن سمجھیگا سیاست تو ابھی انسان ہے ۔

اس قدر پابندی-اے-مزہبدی کے صدقے آپکے،
جب سے آزادی ملی ہے ملک میں رمضان ہے ۔

کلھ نمائش میں ملا وو چیتھڑے پہنے ہئے،
میننے پوچھا نام تو بولا ہندوستان ہے ۔

مجھمیں رہتے ہیں کروڑوں لوگ چپ کیسے رہوں،
ہر غزل اب سلطنت کے نام ایک بیان ہے ۔

46. بہت سنبھال کے رکھی تو پائیمال ہئی

بہت سنبھال کے رکھی تو پائیمال ہئی،
سڑک پے پھینک دی تو زندگی نہال ہئی ۔

بڑا لگاو ہے اس موڑ سے نگاہوں کو،
کہ سبسے پہلے یہیں روشنی حلال ہئی ۔

کوئی نزات کی صورتَ نہیں رہی، ن صحیح،
مگر نزات کی کوشش تو ایک مثال ہئی ۔

میرے زیہن پے زمانے کا وو دباو پڑا،
جو ایک سلیٹ تھی وو زندگی، سوال ہئی ۔

سمدر اور اٹھا، اور اٹھا، اور اٹھا،
کسی کے واسطے یہ چاندنی ببال ہئی ۔

انہیں پتہ بھی نہیں ہے کہ انکے پانووں سے،
وو خوں بہا ہے کہ یہ گرد بھی گلال ہئی ۔

میری زبان سے نکلی تو صرف نظم بنی،
تمہارے ہاتھ میں آئی تو ایک مشال ہئی ۔

47. وو آدمی نہیں ہے مکمل بیان ہے

وو آدمی نہیں ہے مکمل بیان ہے،
ماتھے پے اسکے چوٹ کا گہرا نشان ہے ۔

وے کر رہے ہیں عشقَ پے سنجیدہ گفتگو،
میں کیا بتاؤں میرا کہیں اور دھیان ہے ۔

سامان کچھ نہیں ہے پھٹیہال ہے مگر،
جھولے میں اسکے پاس کوئی سنویدھان ہے ۔

اس سرپھرے کو یوں نہیں بہلا سکینگے آپ،
وو آدمی نیا ہے مگر ساودھان ہے ۔

پھسلے جو اس جگہ تو لڑھکتے چلے گئے،
ہمکو پتہ نہیں تھا کہ اتنا ڈھلان ہے ۔

دیکھے ہیں ہمنے دور کئی اب خبر نہیں،
پانووں طلے زمین ہے یا آسمان ہے ۔

وو آدمی ملا تھا مجھے اسکی بات سے
ایسا لگا کہ وو بھی بہت بے زبان ہے ۔

48. کسی کو کیا پتہ تھا اس ادا پر مر مٹینگے ہم

کسی کو کیا پتہ تھا اس ادا پر مر مٹینگے ہم،
کسی کا ہاتھ اٹھا اور الکوں تک چلا آیا ۔

وو برگشتا تھے کچھ ہمسے انہیں کیونکر یقیں آتا،
چلو اچھا ہوا ایہساس پلکوں تک چلا آیا ۔

جو ہمکو ڈھونڈھنے نکلا تو پھر واپس نہیں لوٹا،
تصور ایسے غیر-آباد حلقوں تک چلا آیا ۔

لگن ایسی کھری تھی تیرگی آڑے نہیں آئی،
یہ سپنا صبح کے ہلکے دھندھلکوں تک چلا آیا ۔

49. ہونے لگی ہے جسم میں جمبش تو دیکھیئے

ہونے لگی ہے جسم میں جمبش تو دیکھیئے،
اس پرکٹے پرندے کی کوشش تو دیکھیئے ۔

گونگے نکل پڑے ہیں، جباں کی تلاش میں،
سرکار کے خلاف یہ سازش تو دیکھیئے ۔

برسات آ گئی تو درکنے لگی زمین،
سوکھا مچا رہی یہ بارش تو دیکھیئے ۔

انکی اپیل ہے کہ انھیں ہم مدد کریں،
چاقو کی پسلیوں سے گزارش تو دیکھیئے ۔

جسنے نظر اٹھائی وحی شخص گم ہوا،
اس جسم کے تلسم کی بندش تو دیکھیئے ۔

50. میں جسے اوڑھتا-بچھاتا ہوں

میں جسے اوڑھتا-بچھاتا ہوں،
وو غزل آپکو سناتا ہوں ۔

ایک جنگل ہے تیری آنکھوں میں،
میں جہاں راہ بھول جاتا ہوں ۔

تو کسی ریل-سیل گزرتی ہے،
میں کسی پل-سال تھرتھراتا ہوں ۔

ہر طرف ایتراز ہوتا ہے،
میں اگر روشنی میں آتا ہوں ۔

ایک بازو اکھڑ گیا جب سے،
اور زیادا وزن اٹھاتا ہوں ۔

میں تجھے بھولنے کی کوشس میں،
آج کتنے قریب پاتا ہوں ۔

کون یہ فاصلہ نبھائیگا،
میں فرشتہ ہوں سچ بتاتا ہوں ۔

51. اب کسی کو بھی نظر آتی نہیں کوئی درار

اب کسی کو بھی نظر آتی نہیں کوئی درار،
گھر کی ہر دیوار پر چپکے ہیں اتنے اشتہار ۔

آپ بچکر چل سکیں ایسی کوئی صورتَ نہیں،
رہگزر گھیرے ہئے مردے کھڑے ہیں بے شمار ۔

روز اخباروں میں پڑھکر یہ خیال آیا ہمیں،
اس طرف آتی تو ہم بھی دیکھتے فسلے-بہار ۔

میں بہت کچھ سوچتا رہتا ہوں مگر کہتا نہیں،
بولنا بھی ہے منا، سچ بولنا تو درکنار ۔

اس سرے سے اس سرے تک سب شریکے جرم ہیں،
آدمی یا تو ضمانت پر رہا ہے یا فرار ۔

حالتے انسان پر برہم ن ہوں اہلِ-وطنے،
وو کہیں سے زندگی بھی مانگ لائینگے ادھار ۔

رونکے جنت ذرا بھی مجھکو راس آئی نہیں،
میں جہنم میں بہت خوش تھا میرے پروردگار ۔

دستکوں کا اب کواڑوں پر اثر ہوگا ضرور،
ہر ہتھیلی خون سے تر اور زیادا بے قرار ۔

52. تمہارے پانووں کے نیچے کوئی زمین نہیں

تمہارے پانووں کے نیچے کوئی زمین نہیں،
کمال یہ ہے کہ پھر بھی تمہیں یقین نہیں ۔

میں بے پناہ اندھیروں کو صبح کیسے کہوں،
میں ان نزاروں کا اندھا تماشبین نہیں ۔

تیری زبان ہے جھوٹھی جمہورییت کی ترہ،
تو ایک ذلیل سی گالی سے بیہترین نہیں ۔

تمہیں سے پیار جتائیں تمہیں کو کھا جاییں،
ادیب یوں تو سیاسی ہیں پر کمین نہیں ۔

تجھے قسم ہے خودی کو بہت ہلاک ن کر،
تو اس مشین کا پرزہ ہے، تو مشین نہیں ۔

بہت مشہور ہے آییں ضرور آپ یہاں،
یہ ملک دیکھنے کے لایک تو ہے، حسین نہیں ۔

ذرا-ساا طور-طریقوں میں ہیر-پھیر کرو،
تمہارے ہاتھ میں کالر ہو، آستین نہیں ۔