رام پرساد بسمل دی شاعری
سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازو-اے-قاتل میں ہے۔
کرتا نہیں کیوں دوسرا کچھ بات چیت
دیکھتا ہوں میں جسے وو چپ تری مہفل میں ہے۔
اے شہیدے-ملکو-ملت میں تیرے اوپر نثار
اب تیری ہمت کا چرچہ غیر کی مہفل میں ہے۔
وقت آنے دے بتا دینگے تجھے اے آسماں
ہم ابھی سے کیا بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے۔
کھینچ کر لائی ہے سب کو قتل ہونے کی امید
عاشقوں کا آج جمگھٹ کوچا-اے-قاتل میں ہے۔
یوں کھڑا مقتل میں قاتل کہ رہا ہے بار بار
کیا تمنا-اے-شہادت بھی کسی کے دل میں ہے۔
(ملت=لوک، کوچا=گلی، مقتل=قتل گاہ)
نوٹ=اس رچنا دے کوی بسمل عظیم آبادی ہن،
پر مشہور ایہہ رام پرساد بسمل دے ناں نال ہی ہے ۔
چرچہ اپنے قتل کا اب دشمنوں کے دل میں ہے !
دیکھنا ہے یہ تماشہ کون سی منزل میں ہے ؟
قوم پر قربان ہونا سیخ لو اے ہندییو !
زندگی کا رازے-مجمر کھنجرے-قاتل میں ہے !
ساہلے-مقصود پر لے چل کھدارا ناکھدا !
آج ہندوستان کی کشتی بڑی مشکل میں ہے !
دور ہو اب ہند سے تاریکی-اے-بگجو-ہسدو،
اب یہی حسرت یہی ارماں ہمارے دل میں ہے !
بامے-رپھئت پر چڑھا دو دیش پر ہوکر فنا،
'بسمل' اب اتنی ہوش باقی ہمارے دل میں ہے !
(راز=بھید، ساہلے-مقصود=من-چاہیا کنارہ،
ناکھدا=ملاح، تاریکی-اے-بگجو-ہسدو=ایرکھا-ساڑے
دا ہنیرا، ہوش=چاہ)
مٹ گیا جب مٹنے والا پھر سلام آیا تو کیا !
دل کی بربادی کے بعد انکا پیام آیا تو کیا !
مٹ گئیں جب سب امیدیں مٹ گئے جب سب خیال،
اس گھڑی گر ناماور لیکر پیام آیا تو کیا !
اے دلے-نادان مٹ جا تو بھی کوُ-اے-یار میں،
پھر میری ناکامییوں کے بعد کام آیا تو کیا !
کاش! اپنی زندگی میں ہم وو منجر دیکھتے،
یوں سرے-تربت کوئی محشر-کھرام آیا تو کیا !
آخری شب دید کے قابیل تھی بسمل کی تڑپ،
سبھ-دمھ کوئی اگر بالا-اے-باما آیا تو کیا !
(پیام=سنیہا، ناماور=ڈاکیا، کوُ=گلی، منجر=
نظارہ، سرے-تربت=میری قبر تے، محشر-کھرام=
چال نال پرلو لیاؤن والا، شب=رات، )
نوٹ=اس رچنا نوں رام پرساد بسمل دی اخیری رچنا
منیاں جاندا ہے ۔
حیف ہم جسپے کہ تییار تھے مر جانے کو
جیتے جی ہمنے چھوڑ دییا اسی کاشانے کو
کیا نہ تھا اور بہانہ کوئی تڑپانے کو
آسماں کیا یہی باقی تھا ستم ڈھانے کو
لاکے غربت میں جو رکھا ہمیں ترسانے کو
پھر نہ گلشن میں ہمیں لاییگا سیاد کبھی
یاد آییگا کسے یہ دل-اے-ناشاد کبھی
کیوں سنیگا تو ہماری کوئی پھریاد کبھی
ہم بھی اس باغ میں تھے قید سے آزاد کبھی
اب تو کاہے کو ملیگی یہ ہوا خانے کو
دل فدا کرتے ہیں قربان جگر کرتے ہیں
پاس جو کچھ ہے وو ماتا کی نظر کرتے ہیں
خانا ویران کہاں دیکھیئے گھر کرتے ہیں
خوش رہو اہل-اے-وطن، ہم تو سفر کرتے ہیں
جاکے آباد کرینگے کسی ویرانے کو
نہ میسر ہوا راحتَ سے کبھی میل ہمیں
جان پر کھیل کے بھایا نہ کوئی کھیل ہمیں
ایک دن کا بھی نہ منظور ہوا بیل ہمیں
یاد آئیگا الیپر کا بہت جیل ہمیں
لوگ تو بھول گیے ہونگے اس افسانے کو
انڈمان خاک تیری کیوں نہ ہو دل میں نازاں
چھوکے چرنوں کو جو پنگلے کے ہئی ہے ذیشان
مرتبہ اتنا بڑھے تیری بھی تقدیر کہاں
اعتے اعتے جو رہے 'بال تلک' بھی میہماں
'مانڈلے' کو ہی یہ ایزاز ملا پانے کو
بات تو جب ہے کہ اس بات کی زدے ٹھانیں
دیش کے واسطے قربان کریں ہم جانیں
لاکھ سمجھائے کوئی، اسکی نہ ہرگز مانیں
بہتے ہئے خون میں اپنا نہ غریباں سانیں
ناسیہا، آگ لگے اس تیرے سمجھانے کو
اپنی قسمت میں اضل سے ہی ستم رکھا تھا
رنج رکھا تھا، میہن رکھا تھا، غم رکھا تھا
کسکو پرواہ تھی اور کسمیں یہ دم رکھا تھا
ہمنے جب وادی-اے-غربت میں قدم رکھا تھا
دور تک یاد-اے-وطن آئی تھی سمجھانے کو
ہم بھی آرام اٹھا سکتے تھے گھر پر رہ کر
ہم بھی ماں باپ کے پالے تھے، بڑے دکھ سہ کر
وقت-اے-رخصت انھیں اتنا بھی نہ آئے کہ کر
گود میں آنسو جو ٹپکے کبھی رخ سے بہ کر
طفل انکو ہی سمجھ لینا جی بہلانے کو
دیش سیوا کا ہی بہتا ہے لہو نس-نس میں
ہم تو کھا بیٹھے ہیں چتوڑ کے گڑھ کی قسمیں
سرپھروشی کی ادا ہوتی ہیں یوں ہی رسمیں
بھالے-خنجر سے گلے ملتے ہیں سب آپس میں
بہنوں، تییار چتاؤں میں ہو جل جانے کو
اب تو ہم ڈال چکے اپنے گلے میں جھولی
ایک ہوتی ہے فقیروں کی ہمیشہ بولی
خون میں پھاگ رچائیگی ہماری ٹولی
جب سے بنگال میں کھیلے ہیں کنھییا ہولی
کوئی اس دن سے نہیں پوچھتا برسانے کو
اپنا کچھ غم پر ہمکو خیال آتا ہے
مادر-اے-ہند پر کب تک زوال آتا ہے
'ہردیال' آتا ہے 'یوروپ' سے نہ 'لال' آتا ہے
دیش کے حالَ پے رہ رہ ملال آتا ہے
منتظر رہتے ہیں ہم خاک میں مل جانے کو
نوجوانوں، جو تبییت میں تمھاری خٹکے
یاد کر لینا ہمیں بھی کبھی بھولے-بھٹکے
آپ کے ززوے بدن ہویے جدا کٹ-کٹکے
اور صد چاک ہو ماتا کا کلیجہ پھٹکے
پر نہ ماتھے پے شکن آئے قسم خانے کو
دیکھیں کب تک یہ اسیران-اے-مصیبت چھوٹیں
مادر-اے-ہند کے کب بھاگ کھلیں یا پھوٹیں
'گاندھی' اپھریکا کی بازاروں میں صدقے کوٹیں
اور ہم چین سے دن رات بہاریں لوٹیں
کیوں نہ ترزیہ دیں اس جینے پے مار جانے کو
کوئی ماتا کی امیدوں پے نہ ڈالے پانی
زندگی بھر کو ہمیں بھیج کے کالے پانی
منہ میں جلاد ہئے جاتے ہیں چھالے پانی
آب-اے-خنجر کا پلا کرکے دعا لے پانی
بھرنے کیوں جاییں کہیں عمر کے پیمانے کو
میکدا کسکا ہے یہ جام-اے-سبو کسکا ہے
وار کسکا ہے جوانوں یہ گلو کسکا ہے
جو بہے قوم کی کھاتر وو لہو کسکا ہے
آسماں صاف بتا دے تو عدو کسکا ہے
کیوں نیے رنگ بدلتا ہے تو تڑپانے کو
دردمندوں سے مصیبت کی حلاوت پوچھو
مرنے والوں سے ذرا لطفَ-اے-شہادت پوچھو
چشم-اے-گستاکھ سے کچھ دید کی حسرت پوچھو
کشتہ-اے-نازتا سے ٹھوکر کی کیامت پوچھو
سوز کہتے ہیں کسے پوچھ لو پروانے کو
نوجوانوں یہی موقع ہے اٹھو کھل کھیلو
اور سر پر جو بلا آیے خوشی سے جھیلو
کونم کے نام پے صدقے پے جوانی دے دو
پھر ملینگی نہ یہ ماتا کی دعائیں لے لو
دیکھیں کون آتا ہے ارشاد بجا لانے کو
(حیف=افسوس، فدا=قربان، کاشانے=گھر،
بیل=ضمانت، ناسیہا=اپدیشک، رخ=چہرہ،
طفل=بچہ، صد=سو، شکن=تیوڑی،وٹ،
اسیران-اے-مصیبت=قید دا دکھ، گلو=گلا،
عدو=دشمن، چشم=اکھ، ارشاد بجا لانا=
کیہا مننا)
الٰہی خیر وو ہردم نئی بے داد کرتے ہیں
ہمیں تہمت لگاتے ہیں جو ہم پھریاد کرتے ہیں
یہ کہ کہ کر بصر کی امر ہمنے قیدے الفت میں
وو اب آزاد کرتے ہیں وو اب آزاد کرتے ہیں
ستم ایسا نہیں دیکھا جفا ایسی نہیں دیکھی
وو چپ رہنے کو کہتے ہیں جو ہم پھریاد کرتے ہیں
ن چاہوں مان دنییا میں، ن چاہوں سورگ کو جانا
مجھے ور دے یہی ماتا رہوں بھارت پے دیوانہ
کروں میں قوم کی سیوا پڑے چاہے کروڑوں دکھ
اگر پھر جنم لوں آکر تو بھارت میں ہی ہو آنا
لگا رہے پریم ہندی میں، پڑھونں ہندی لکھوں ہندی
چلن ہندی چلوں، ہندی پہرنا، اوڑھنا خانا
بھون میں روشنی میرے رہے ہندی چراگوں کی
سودیشی ہی رہے باجا، بجانا، راگ کا گانا
لگیں اس دیش کے ہی ارتھ میرے دھرم، ودیا، دھن
کروں میں پران تک ارپن یہی پرن ستی ہے ٹھانا
نہیں کچھ غیر-ممکن ہے جو چاہو دل سے 'بسمل' تم
اٹھا لو دیش ہاتھوں پر ن سمجھو اپنا بیگانہ
ہے ماتریبھومی ! تیرے چرنوں میں شر نواؤں ۔
میں بھکتی بھینٹ اپنی، تیری شرن میں لاؤں ۔
ماتھے پے تو ہو چندن، چھاتی پے تو ہو مالا ؛
جہوا پے گیت تو ہو میرا، تیرا ہی نام گاؤں ۔
جسسے سپوت اپجیں، شری رام-کرشن جیسے؛
اس دھول کو میں تیری نج شیش پے چڑھاؤں ۔
مائی سمدر جسکی پد رج کو نتی دھوکر؛
کرتا پرنام تجھکو، میں وے چرن دباؤں ۔
سیوا میں تیری ماتا ! میں بھیدبھاو تجکر؛
وہ پنی نام تیرا، پرتیدن سنوں سناؤں ۔
تیرے ہی کام آؤں، تیرا ہی منتر گاؤں۔
من اور دیہہ تجھ پر بلیدان میں جاؤں ۔
(نج=اپنے، پد رج=چرن-دھوڑ)
اروزے کامیابی پر کبھی تو ہندستاں ہوگا ۔
رہا سییاد کے ہاتھوں سے اپنا آشیاں ہوگا ۔
چکھایینگے مزہ بربادی-اے-گلشنی کا گلچیں کو ۔
بہار آییگی اس دن جب کہ اپنا باگواں ہوگا ۔
وطن کی آبرو کا پاس دیکھیں کون کرتا ہے ۔
سنا ہے آج مقتل میں ہمارا امتہاں ہوگا ۔
جدا مت ہو میرے پہلو سے اے دردے-وطنے ہرگز ۔
ن جانے بعد مردن میں کہاں اور تو کہاں ہوگا ۔
یہ آیے دن کی چھیڑ اچھی نہیں اے کھنجرے-قاتل !
بتا کب فیصلہ انکے ہمارے درمیاں ہوگا ۔
شہیدوں کی چتاؤں پر جڑیگیں ہر برس میلے ۔
وطن پر مرنے والوں کا یہی باقی نشاں ہوگا ۔
الٰہی وہ بھی دن ہوگا جب اپنا راجی دیکھینگے ۔
جب اپنی ہی جمیں ہوگی اور اپنا آسماں ہوگا
(عروض=ترقی، سییاد=شکاری، آشیاں=آلھنا،گھر،
گلچیں=پھلیرا،پھلّ توڑن والا، مقتل=قتل گاہ)
بھارت جننی تیری جی ہو وجی ہو ۔
تو شدھ اور بدھ گیان کی آگار،
تیری وجی سوری ماتا ادی ہو ۔
ہوں گیان سمپنّ جیون سپھل ہووے،
سنتان تیری اکھل پریممی ہو ۔
آییں پن: کرشن دیکھیں دشا تیری،
سریتا سروں میں بھی بہتا پرنی ہو ۔
ساور کے سنکلپ پورن کریں ایش،
ودھن اور بادھا سبھی کا پرلی ہو ۔
گاندھی رہے اور تلک پھر یہاں آویں،
اروند، لالا مہیندر کی جی ہو ۔
تیرے لییے جیل ہو سورگ کا دوار،
بیڑی کی جھن-جھن بینا کی لی ہو ۔
کہتا خلل آج ہندو-مسلمان،
سب مل کے گاؤ جننی تیری جی ہو ۔
(آگار=گھر، سریتا=ندی، سر=تالاب)
اے ماتریبھومی تیری جی ہو، سدا وجی ہو
پرتییک بھکت تیرا، سکھ-شانتی-کانتیمی ہو
اگیان کی نشا میں، دکھ سے بھری دشا میں
سنسار کے ہردی میں تیری پربھا ادی ہو
تیرا پرکوپ سارے جگ کا مہاپرلی ہو
تیری پرسنتا ہی آنند کا وشی ہو
وہ بھکتی دے کہ بسمل سکھ میں تجھے ن بھولے
وہ شکتی دے کہ دکھ میں کایر ن یہ ہردی ہو
(کانتیمی=تیجوان، نشا=رات،)