Maulana Rumi
مولانا رومی

Punjabi Kavita
  

Poetry of Maulana Rumi in Punjabi

غزلاں مولانا رومی

1. بن میرے

اک سفر پر میں رہا، بن میرے
اس جگہ دل کھل گیا، بن میرے

وو چاند جو مجھ سے چھپ گیا پورا
رخ پر رخ رکھ کر میرے، بن میرے

جو غمے یار میں دے دی جان میننے
ہو گیا پیدا وو غم میرا، بن میرے

مستی میں آیا ہمیشہ بغیر می کے
خوش حالی میں آیا ہمیشہ، بن میرے

مجھ کو مت کر یاد ہرغج
یاد رکھتا ہوں میں خود کو، بن میرے

میرے بغیر خوش ہوں میں، کہتا ہوں
کہ ای میں رہو ہمیشہ بن میرے

راستے سب تھے بند میرے آگے
دے دی ایک کھلی راہ بن میرے

میرے ساتھ دل بندہ کیکوباد کا
وو کیکوباد بھی ہے بندہ بن میرے

مست شمسے تبریز کے جام سے ہوا
جامے می اسکا رہتا نہیں بن میرے

(کلیاتے دیوانے شمس تبریزی وچ غزل نن: 128،
کیکوباد=کیکوباد ناں دے روم وچ دو سیلجک سلطان ہوئے،
اک 1220-37 ای: اتے دوجا 1249-57 ای:، اتھے
دوجے سلطان ولّ اشارہ لگدا ہے)

2. ہنگامے رات کے

ہم آ گئے چونکہ ہنگامے میں رات کے
لے آیے کیا-کیا دریا سے رات کے

رات کے پردے میں ہے وو چھپا ہوا گواہ
دن بھلا برابر میں ہے کب رات کے

سونا چاہیگا نہیں، نیند سے کرے گریز
جو کہ دیکھے نہیں اسنے تماشے رات کے

جان بہت پاک اور بس پرنور دل
بندھا رہا، لگا رہا، بندگی میں رات کے

رات تیرے آگے ہے جیسے کالی پتیلی
کیونکِ چکھے نہیں تونے حلوے رات کے

لمبی یہ راہ ہے رفتار دے میرے یار
لمبائییاں ہیں اور چوڑائیاں ہیں رات کے

ہاتھ میرے بند ہیں سب کام-کاج سے
صبح تلک ہاتھ میرے حوالے رات کے

پیشاوری کاروبار ہے اگر دن کا
لطفَ الگ ہیں بیوپار کے رات کے

مجھے فخر اپنے شمسدین تبریزی پر
ہسرتیں دن کی تو تمنا رات کے

3. میکدے میں آج

نشے سے بیٹھے ہیں رندو جیسے میکدے میں آج
زحد ن کرینگے اور ن نماز پڈھینگے آج

کیا بولوں کیا مہفل کیا می ہے آج
کیا ساقی، کیا میہربانی، کیا لطفَ آج

نہ ہجر کا کوئی نشان ہے، نہ بو ہے
دلدار سے میل اور وصال ہے آج

آج ملتے تحفے اور چمے ساقی سے
پیالے ہیں، مستییاں ہیں، اور شرابیں ہیں آج

آج مستی میں جانوں نہ صبح سے شام
گزر رہے ہیں زمانے لمھوں کی ترہ آج

جل پڑے ہیں آز فتنے میں لگ کر سبھی
اس آنگن کی مجلس میں ہای و ہو ہے آج

خود سے نکل کر پوجتے ہیں سبھی شراب کو
ساقی کے دیکھے بن ہم پر ہوتی نہیں کرامات

شمسدین تبریزی نے کی ن کوئی خرافات
توحید کی می ڈھال سب یاروں کو دی آواز

(رند=پکا شرابی، ہجر=جدائی، فتنے=دنگے،
ہنگامے، مجلس=سبھا، توحید=ادویت، صرف
اک ربّ نوں مننا)

4. ہمارے سرساز

چاہے توڑ دو ہمارے ساز اے ملا
ساز ہمارے پاس ہزاروں اور بھی ہیں

عشقَ کے پنجوں میں ہم گر گئے جو
کیا فکر جو باجے-بنسی کم ہئے ہیں

سارے جہاں کے ساز جو جل بھی جائیں
بہت سرساز تو بھی چھپ کر کھڑے ہیں

ترنگ اور تان انکی گئی آسماں تک
مگر ان بہرے کانوں میں کچھ آتا نہیں ہے

دنیا کے چراغ و شمع سب بجھ بھی جائیں
تو غم کیا، چکمک جہاں میں کم نہیں ہے

یہ نغمہ تو ایک تنکا دریا کے اوپر
گوہر دریا کی سطح پر آتا نہیں ہے

پر حسن اس تنکے کا جانو گوہر سے
اس چوندھ کی عکس کی عکس ہم پر گری ہے

یہ نغمیں سارے وصل کے شوق کی ہیں شاخیں
اور مول اور شاخ کبھی برابر نہیں ہیں

تو بند کر یہ منہ اور در کھولھ دل کا
اس راہ سے باتیں روحوں سے پھر کیا کر

(کلیاتے دیوانے شمس تبریزی وچ غزل نن: 11،
چکمک=اگّ جلاؤن والا پتھر، گوہر=موتی)

5. مول کے مول میں آ

کب تلک الٹا چلیگا، اب سیدھے آ
چھوڑ کفر کی راہ، اب چل دین کی راہ
اس ڈنک میں دیکھ دوا، اور ڈنک کھا
اپنی خواہش کے مول کے مول میں آ

ہرچند ہے تو اس مٹی کا ہی بنا
سچ کے موتی کے دھاگوں سے اندر بنا
خدائی نور کا خزانچی تجھکو چنا
اپنی خواہش کے مول کے مول میں آ

بے خودی سے جب تو خود کو باندھ لیگا
تو جان کہ خودی کی قید سے کھلیگا
اور ہزار بندھن توڑ تو اڑ چلیگا
اپنی خواہش کے مول کے مول میں آ

خلیفہ کی پشت سے تو پیدا ہوا ہے
پسرے اس کھوٹے جہاں کو دیکھتا ہے
لعنت تو اتنے پر ہی خوش گھومتا ہے
اپنی خواہش کے مول کے مول میں آ

ہرچند اس جہاں کا تعویز ہے تو
اندر چھپے خزانوں کی خان ہے تو
جھانک اپنی چھپی آنکھیں کھولھ کے تو
اپنی خواہش کے مول کے مول میں آ

خدا کے جلال سے بھر کر تو پیدا ہوا ہے
ستارے اور سگن نیک بھی برپا ہوا ہے
وو ہے ہی نہیں جسے تو رو گا رہا ہے
اپنی خواہش کے مول کے مول میں آ

سارے پتھر میں جڑا تو ہے ایک مانک
کریگا کب تک دھوکھا ہماری جانب
ہوا جا رہا آنکھوں سے سب ظاہر
اپنی خواہش کے مول کے مول میں آ

سرکش یار کے پاس سے آیے ہو تم
پیکر مست پھر بھی نازک اور دلکش
آنکھوں میں خوش ہو اور دل میں آتش
اپنی خواہش کے مول کے مول میں آ

شمس تبریزی ہیں ہمارے شاہ اور ساقی
دے دیا ہمارے ہاتھوں میں جامے باقی
سبحان اﷲ خالص یہ شراب جا پی
اپنی خواہش کے مول کے مول میں آ

(کلیاتے دیوانے شمس تبریزی وچ غزل نن: 12،
ڈنک کھا=کیونکہ ربّ دیراہ وچ پہلاں دکھ آؤندے
ہن اتے چیزاں کوڑیاں لگدیاں ہن اس لئی اوہناں
دی تلنا ڈنگ نال کیتی گئی ہے، سچ=ربّ، خلیفہ=
نمائندہ)

6. گلابی گال تیرے

گلابی گال تیرے جب دیکھ پاتے ہیں
ہوکے خوشگوار پتھروں میں راہ پاتے ہیں

اک بار گھونگھٹ ذرا پھر سے ہٹا دو
دنگ ہونے کا دیوانوں کو مزہ دو

تاکِ عالم سمجھی-بوجھی راہ بھولیں
ہشیاروں کی عقل کی ہل جائیں چولیں

پانی بن جای موتی، تمھارا عکس پڑنا
تاکِ آتش چھوڑ دے جلنا، جنگ کرنا

تمھارے حسن کے آگے چاند سے منہ موڑ لوں
جنت کی جھلملاتی روشنیاں چھوڑ دوں

تمھارے چہرے کے آگے ن بولوں-آئینہ ہے
یہ بوڑھا آسماں تو جنگ جیسے کھا گیا ہے

اس جہاں میں سانس تمنے پھونک دی ہے
اس بیچارے کو نئی ایک شکل دی ہے

اے اشنا ساز میں کچھ تان لاؤ
پینی آنکھوں کے لئے کچھ خواہش جگاؤ

(کلیاتے دیوانے شمس تبریزی وچ غزل نن: 171،
سانس تمنے پھونک دی ہے=اﷲ نے اپنے دم (ساہ) توں
دنیاں بنائی، کیہا کن (ہو جا)، اتے سبھ کجھ
ہو گیا، اشنا=شکر گریہہ، شکر گریہہ دا سنگیت نال
سدھا سنبندھ ہے، اک تاں ایہی ارتھ ہویا، دوجے
برہمنڈ دی صوفیاں دی کلپنا انوسار شکر اتے
دیودوت رہندے ہن، اتے انسانل کامل دا اگلا
مقام فرشتے ہن اس لئی شاید رومی نے شمس یا
سلاہودین نوں اشنا دے ناں نال سنبودھت کیتا ہے)

7. سنے کون آلاپ میرے

پناہ میری یار میرے، شوق کی پھٹکار میرے،
مالکو مولٰی بھی ہو، اور ہو پہریدار میرے ۔

نوح تو ہی روح تو ہی، کرنگ تو ہی تیر تو ہی،
آس او امید تو ہے، گیان کے دوار میرے ۔

نور تو ہے سور تو، دولتے-منصور تو،
باجیکوہیتور تو، مار دئے خراش میرے ۔

قطرہ تو دریا تو، غنچہ-او-کھار تو،
شہد تو زہر تو، درد دئے ہزار میرے ۔

سورج کا گھربار تو، شکر کا آگار تو،
آس کا پرسار تو، پار لے چل یار میرے ۔

روز تو اور روزہ تو، منگتے کی خیرات تو،
گاگرا تو پانی تو، لب بھگو اس بار میرے ۔

دانا تو او جال تو، شراب تو او جام تو،
انگڑھ تو تییار تو، عیب دے سدھار میرے ۔

ن ہوتے بے خودی میں ہم، دل میں درد ہوتے کم،
راہ اپنی چل پڑے تم، سنے کون آلاپ میرے ۔

(کرنگ=ہرن، کوہیتور=کوہیتور اس پہاڑ دا ناں
ہے جتھے موسیٰ نوں خدائی نور دے درشن ہوئے سن،
باجیکوہیتور=باجیکوہیتور سے رومی دا اشارہ شمس
ولّ ہے جو اوہ سمجھدے سن کہ اوہ خدائی نور دے
درشن منمرضی نال کر لیندے سن)

8. جادوگر

جادوگر تم انوکھے ہو نرالے ہو ۔
شکاری، شکار کو بنانے والے ہو ۔۔

دو دیکھنے کی عادت اپنی بہت پرانی ۔
جادو چلا تمھارا ہئی آنکھیں اینچی تانی ۔۔

پک گیے ہو پورے، شہتوت سے ہو میٹھے ۔
انگور کیا انگوری، تیرے لیے سب سیٹھے ۔۔

ممیاتے تھے جو اب تک جم کر غرض رہے ہیں ۔
کیسے موگرے کے تن سے گلاب جم رہے ہیں ۔۔

تن کے چلنے والے جاتے ہیں سر جھکایے ۔
خاموش رہنے والے اب ہیں آسماں اٹھایے ۔۔

جہالت مے قید تھے جو ہو گیے ہیں گیانی ۔
سنجیدہ ہو گیے ہیں جادو سے آسمانی ۔۔

جو تلوار سجاتے تھے کلھ جنگے-میدان میں ۔
اب لفظوں کے وار کرتے اور صرف قان میں ۔۔

جادو چلا ہے تیرا چینٹی کا وقت آیا ۔
خوف میں ہیں ہاتھی جو انکو سدا ستایا ۔۔

جادو ن سمجھو اسکو، ظلم سے ہے جنگ ۔
بدل رہے ہیں دیکھو، تقدیر کے وو ڈھنگ ۔۔

لفظوں میں مت الجھنا، تاکید ہے یہ انکی ۔
یاد رہے ہمیشہ، بس سنو زبان ہک کی ۔۔

کویتاواں مولانا رومی

1. مرلی کا گیت

(مثنوی کی پہلی کتاب کی شروعات
اسی مرلی کے گیت سے ہوتی ہے)

سنو یہ مرلی کیسی کرتی ہے شکایت ۔
ہیں دور جو پی سے، انکی کرتی ہے ہکایت ۔۔

کاٹ کے لایے مجھے، جس روز ون سے ۔
سن روئے مردوزن، میرے سر کے غم سے ۔۔

کھوجتا ہوں ایک سینہ پھرکت سے زرد-زرد ۔
کر دوں بیان اس پر اپنی پیاس کا درد ۔۔

کر دیا جسکو وقت نے اپنوں سے دور ۔
کرے دعا ہر دم یہی، واپسی ہوی منظور ۔۔

میری فریاد کی تان ہر مجلس میں ہوتی ہے ۔
بدحالی مے ہوتی ہے اور خوش حالی میں ہوتی ہے ۔۔

بس اپنے من کی سنتا سمجھتا ہر کوئی ۔
کیا ہے چھپا میرے دل مے، جانتا نہیں کوئی ۔۔

راز میرا فریادوں سے میری، الغ تو نہی ۔
آنکھ سے، قان سے یہ کھلتا مگر جو نہیں ۔۔

تن سے جان اور جان سے تن چھپا نہیں ہے ۔
کسی نے بھی مغر جان کو دیکھا نہیں ہے ۔۔

ہوا ہے تان مے مرلی کی ؟ نہیں سب آگ ہے ۔
جسمیں نہیں یہ آگ، وو تو مرداباد ہے ۔۔

مرلی کے اندر آگ عاشق کی ہوتی ہے ۔
عاشق کی ہی تیزی می میں بھی ہوتی ہے ۔۔

ہو گئی مرلی اسی کی یار، پائی جسمیں پیر ۔
دے دیا انکو سہارا، کر میرا پردہ چیر ۔۔

مرلی سا زہر بھی دوا بھی، کسنے دیکھا ہے ۔
ہمدرد سچا مرلی جیسا کسنے دیکھا ہے ۔۔

کھوں سے بھری راہوں سے مرلی آغاز کرتی ہے ۔
روداد گاڑھے عشقَ کی مجنوں کی کہتی ہے ۔۔

ہوش سے انجان وو سب، جو بے ہوش نہیں ہے ۔
اس آواز کو جانے وو کیا، جسے قان نہیں ہے ۔۔

درد ایسا ملا جو ہے ہر وقت میرے ساتھ ۔
وقت ایسا ملا، ہر لمہہ تپش کے ساتھ ۔۔

بیتے جا رہے یہ دن یوں ہی، کوئی بات نہیں ۔
تو بنے رہنا یوں ہی، تجھ سا کوئی پاک نہیں ۔۔

جو مچھلی تھے نہیں، پانی سے سب تھک گیے ۔
لاچار تھے جو، دن انکے جیسے تھم گیے ۔۔

ن سمجھینگے جو کچے ہیں، پکنا کسکو کہتے ہیں ۔
نہیں یہ راز گودے کے، چھلکا اسکو کہتے ہیں ۔۔

تو ہو آزاد اے بچے، قیدوں سے دراروں کی ۔
رہوگے بند کب تک، چاندی میں دیواروں کی ۔۔

ساگر کو بھروگے گاگر میں، کتنا آئیگا ؟
عمر میں ایک دن جتنا بھی ن آئیگا ۔۔

بھرو لوبھ کا گاگر، کبھی بھر پاؤگے نہیں ۔
خود کو بھرتا موتیوں سے، سیپ پاؤگے نہیں ۔۔

کر دیا جسکا غریباں عشقَ نے ہو چاک ۔
لوبھ لالچ کی برائی سے، ہو گیا وو پاک ۔۔

ای عشقَ تو کھشباش ہو اور زندہ باد ہو ۔
ہماری سب بیماری کا بس تجھسے علاج ہو ۔۔

تو ہے دوا غمان کی اور ہے غرور کی ۔
تجھسے ہی کایم ہے لو، کھرد کے نور کی ۔۔

یہ خاک کا تن عرش تک، جاتا ہے عشقَ سے ۔
خاک کا پربت بھی جھومتا گاتا ہے عشقَ سے ۔۔

عاشقو اس عشقَ نے ہی جان دی کوہے طور میں ۔
تھا طور مستی میں، و تھی غشی موسیٰ ہزور میں ۔۔

لبے-سرخ کے یار سے غرچے مجھے چوما جاتا ۔
مجھسے بھی مرلی سا شیریں سر باہر آتا ۔۔

دور کوئی رہتا ہمزبانو سے جو ہو ۔
بس ہو گیا گونگا، سو زباں واقف وو ہو ۔۔

چونکہ گل اب ہے نہی ویراں بغیچا ہو گیا ۔
بعد گل کے، بند گانا بلبلوں کا ہو گیا ۔۔

معشوق ہی ہے سب کچھ، عاشق ہے بس پردہ ۔
معشوق ہی بس جی رہا ہے، عاشق تو ایک مردہ ۔۔

ایسا ن ہو عاشق تو عشقَ کا کیا حالَ ہو ۔
پرندہ وو اک جسکے گر گئے سب بال ہو ۔۔

ہوش میں کیسے رہوں میں، بڑی مشکل میں ہوں ۔
یار کو دیکھے بنا، ہر گھڑی مشکل میں ہوں ۔۔

ارمان ہے عشقَ کا، اس راز کو دنیا سے بولے ۔
ممکن ہو یہ کس ترہ، آئینہ جب سچ ن کھولے ۔۔

سچ بولتا آئینہ تیرا، سوچ کیوں نہیں ؟
چہرا اسکا زنگ سے، جو صاف ہے نہیں ۔۔

(ہکایت=کہانی، فرکت=برہا، زرد=پیلا،
مجلس=سبھا، آغاز=شروعات، چاک=پھٹیا
ہویا، کھرد=عقل، عرش=آسمان، کوہے-طور=
طور ناں دا پہاڑ، جتھے موسیٰ نوں خدائی نور دے درشن
ہوئے سن، غشی=بے ہوشی، شیریں=مٹھا، واقف=جانکار،
بال=کھنبھ،پر)

بکھرے موتی مولانا رومی

1. دشوار

ہزرتے عیسیٰ سے پوچھا کسی نے جو تھا ہشیار
اس ہستی میں چیز کیا ہے سبسے زیادا دشوار

بولے عیسیٰ سبسے دشوار غصہ خدا کا ہے پیارے
کہ جہنم بھی لرزتا ہے انکے ڈر کے مارے

پوچھا کہ خدا کے اس قہر سے جاں کیسے بچاییں ؟
وو بولے اپنے غصے سے اسی دم نجات پاییں

(دشوار=مشکل، جہنم=نرک،دوزخ، نجات=
چھٹکارا)

2. نایاب علم

سونے اور رپیے سے بھر جای جنگل اگر
بنا مرضی خدا کی لے نہیں سکتے کنکر

سو کتابیں تم پڑھو اگر کہیں رکے بنا
نقطہ نہ رہے یاد خدا کی مرضی کے بنا

اور گر خدمت کری، ن پڑھی ایک کتاب
گریباں کے اندر سے آ جاتے علم نایاب

3. لطیفہ

لطیفہ ایک تعلیم ہے، غور سے اس کو سنو
مت بنو اسکے مہرے، ظاہرہ میں مت بنو

سنجیدہ نہیں کچھ بھی، لطیفے باز کے لئے
ہر لطیفہ سیخ ہے ایک، آکلوں کے لئے

(تعلیم=سکھیا، ظاہرہ=ساہمنے)

4. بدشکل

بدشکل نے خود کو آئینے کے سامنے کیا
غصے سے بھر گیا اور چہرا پلٹ لیا

بدگمان نے جب کسی کا کوئی جرم دیکھا
دوزخ کی آگ میں وو بھیتر سے جل اٹھا

اپنے غرور کو دین کی ہمایت بتاتا ہے
خودی کے کفر کو خود میں دیکھ نہیں پاتا ہے

(آئینے=شیشے، بدگمان=جو بھرم کردا ہے)

5. طوبہ

جو عمر گزر گئی، جڑ اسکی ہے یہ دم
سینچو طوبہ سے اسے، گر رہی نہیں ہے نم

اس عمر کی جڑ کو دو آب-حیات ذرا
تاکِ وو درخت ہو جای پھر سے ہرا-بھرا

سب ماضی تیرا اس پانی سے سدھر جائیگا
زہر پرانا سب اس سے شکر ہو جائیگا

(دم=ساہ،پل، آب-حیات=امرت،
ماضی=بھوت کال)

6. طوبہ

تن میرا اور رگ میری تم سے بھری ہئیں ہے
طوبہ کو رکھنے کی مجھ میں جگہ نہیں ہے

تو تی ہے کہ طوبہ کو دل سے نکال دوں
جنت کی زندگی سے بھی طوبہ کیسے کروں ؟

7. عشقَ

عشقَ ہرا دیتا ہے سب کو، میں ہارا ہوا ہوں
کھارے اشک سے شکر سا میٹھا ہوا ہوں

اے تیز ہوا ! میں سوکھا پتہ سامنے تیرے ہوں
جانتا نہیں کس طرف جا کر میں گروں

8. درد

درد پرانی دوا کو نیا بنا دیتا ہے
درد اداسی کی ہر شاخ کاٹ دیتا ہے

درد چیزوں کو نیا بنانے کا کیمیا ہے
ملال کیسے ہو اٹھ گیا درد جہاں ہے

ارے نہیں بے زار ہو کر مت بھر آہ سرد
کھوج درد، کھوج درد، درد، درد اور درد

9. روح کے راز

جب دیکھو کوئی اپنا کھولھ دو روح کے راز
دیکھو پھول تو گاؤ جیسے بلبل بااواز

لیکن جب دیکھو کوئی دھوکھے و مکاری بھرا
لب سی لو اور بنا لو اپنے کو بند گھڑا

وو پانی کا دشمن ہے بولو مت اسکے آگے
توڑ دیگا وو گھڑے کو جاہلی کا پتھر اٹھاکے

10. جنگ اور جلال

چونکہ نبیوں میں وو رسول رکھتے تھے تلوار
انکی امت میں ہیں جواں مرد اور جنگوار

جنگ اور جلال ہمارے دین کی نشانی ہے
پربت و گفا عیسائی دین میں پائی جانی ہے

11. دل

کہا پیغمبر نے ہک نے ہے فرمایا
ن کسی اونچے میں ن نیچے میں ہوں سمایا

عرش بھی نہیں، ن زمین و ن آسمان
سما سکتا ہے مجھے، پیارے یقین جان

مومن کے دل میں سما جاتا ہوں، ہے عجب
چاہو تو میری ان دلوں میں سے کر لو طلب

12. رہبر

رہبر کا سایہ خدا کے زکر سے بیہتر ہے
سینکڑوں کھانوں و پکوانوں سے صبر بیہتر ہے

دیکھنے والے کی آنکھ سو لاٹھیوں سے بیہتر ہے
آنکھ پہچان لیتی کیا موتی کیا پتھر ہے

13. ہو سے ہوا میں

شکلیں بیشکلی سے باہر آئیں، گئی اسی میں
کیونکِ 'سچ ہے ہم واپس لوٹتے اسی میں'

تو مر رہا ہر دم و واپس ہو رہا ہر دم
کہا مصطفیٰ نے بس ایک دم کا یہ عالم

ہماری سوچ ایک تیر ہے اس ہو سے ہوا میں
ہوا میں کب تک رہے ؟ لوٹ جاتا خدا میں

(سچ...اسی میں=قرآن وچوں، مصطفیٰ=
محمد صاحب دی اپادھی، ہو=صوفیاں
دا ربّ نوں بلاؤن دا اک ناں)

14. مخالف

خدا نے رنج و غم اس لئے ہیں بنائے
تاکِ خلاف اسکے خوشی نظر آئے

مخالفت سے ساری چیزیں ہوتی ہیں پیدا
کوئی نہیں مخالف اسکا وو ہے چھپا

15. مسجد

بےوقوف مسجد میں جاکر تو جھکتے ہیں
مگر دل والوں پر وو ستم کرتے ہیں

وو بس عمارت ہے اصلی ہکیکت یہیں ہے
سروروں کے دل کے سوا مسجد نہیں ہے

وو مسجد جو اؤلیا کے اندر میں ہے
سبھی کا سجداگاہ ہے، خدا اسی میں ہے

(سرور=گورو،مرشد، اؤلیا=سنت)

16. پہاڑ

پہاڑ کی گونج خود سے آگاہ نہیں ہے
پہاڑ کی اکل کو روح سے راہ نہیں ہے

بیکان و بے ہوش وو بس آواز کرتا ہے
جب تم چپ ہو گئے، وو بھی چپ کرتا ہے

17. ایک

وو بیمکان، خدا کا نور جسکے اندر ہے
اسکو ماضی، مستقبل و حالَ کدھر ہے ؟

تیرے رشتے سے ہے ماضی اور مستقبل وو
ایک چیز ہے دونوں، تو سمجھتا ہے کہ دو

(ماضی=بھوت کال، مستقبل=بھوکھ،
حالَ=ورتمان)

18. خدا

جو کچھ بھی تم سوچتے ہو، فنا ہے مانو
وو جو تمھاری سوچ میں نہیں، اسے خدا جانو

19. یار

یار راستے میں سہای اور سہارا ہے
غور سے دیکھو یار راستا تمھارا ہے

20. پستی

خوش رہ غم سے کہ غم پھندا ہے دیدار کا
پستی کی طرف ترقی، ڈھنگ ہے اس راہ کا

21. بت

تمھاری خودی کا بت، سارے بتوں کی ہے جڑ
وو تو بس سانپ، اس میں اجگر کی جکڑ

22. صوفی

اے دوست صوفی کا ہے اس وقت میں رہنا
اس طریقے کی شرط نہیں کلھ کی بات کہنا

23. صوفی

پوچھا کسی نے کہ کیسا ہوتا ہے صوفی
جسے رنج آئے جب، تو ہوتی ہے خوشی

24. درویش

بولا کہ دنیا میں کوئی درویش نہیں ہے
گر ہو کوئی درویش، تو وو درویش 'نہیں ہے'

رباعیاں مولانا رومی

رباعیاں

1
وو پل میری ہستی جب بن گیا دریا
چمک اٹھا ہر زررا ہوکے روشن میرا
بن کے شمع جلتا ہوں رہے عشقَ پر میں
بس لمہہ ایک بن گیا سفرے-امر میرا

2
ہوں وقت کے پیچھے اور کوئی ساتھ نہیں
اور دور تک کوئی کنارہ بھی نہیں
گھٹا ہے رات ہے کشتی میں کھے رہا
پر وو خدا رحیم بنا فضل کے نہیں

3
پہلے تو ہم پے پھرمایے ہزاروں کرم
بعد میں دے دئے ہزاروں درد او غم
بساتے عشقَ پر گھمایا خوب ہمکو
کر دیا دور جب خود کو کھو چکے ہم

4
اے دوست تیری دوستی میں ساتھ آئے ہیں ہم
تیرے قدموں کے نیچے بن گئے خاک ہیں ہم
مزھبے عاشقی میں کیسے یہ واجب ہے
دیکھیں تیرا عالم و تجھے ن دیکھ پائیں ہم