ہرونش رائے بچن دی کویتا
ورکش ہوں بھلے کھڑے،
ہوں گھنے ہوں بڑے،
ایک پتر چھانہ بھی،
مانگ مت، مانگ مت، مانگ مت،
اگنیپتھ اگنیپتھ اگنیپتھ۔
تو ن تھکیگا کبھی،
تو ن رکیگا کبھی،
تو ن مڑیگا کبھی،
کر شپتھ، کر شپتھ، کر شپتھ،
اگنیپتھ اگنیپتھ اگنیپتھ۔
یہ مہان درشی ہے،
چل رہا منشی ہے،
اشرو شویت رقت سے،
لتھپتھ لتھپتھ لتھپتھ،
اگنیپتھ اگنیپتھ اگنیپتھ۔
چل مردانے، سینہ تانے،
ہاتھ ہلاتے، پانو بڑھاتے،
من مسکاتے، گاتے گیت ۔
ایک ہمارا دیش، ہمارا
ویش، ہماری قوم، ہماری
منزل، ہم کسسے بھیبھیت ۔
چل مردانے، سینہ تانے،
ہاتھ ہلاتے، پانو بڑھاتے،
من مسکاتے، گاتے گیت ۔
ہم بھارت کی امر جوانی،
ساگر کی لہریں لاثانی،
گنگ-جمن کے نرمل پانی،
ہمگرِ کی اونچی پیشانی
سبکے پریرک، رکشک، میت ۔
چل مردانے، سینہ تانے،
ہاتھ ہلاتے، پانو بڑھاتے،
من مسکاتے، گاتے گیت ۔
جگ کے پتھ پر جو ن رکیگا،
جو ن جھکیگا، جو ن مڑیگا،
اسکا جیون، اسکی جیت ۔
چل مردانے، سینہ تانے،
ہاتھ ہلاتے، پانو بڑھاتے،
من مسکاتے، گاتے گیت ۔
پوروَ چلنے کے بٹوہی، باٹ کی پہچان کر لے
پستکوں میں ہے نہیں چھاپی گئی اسکی کہانی،
حالَ اسکا گیات ہوتا ہے ن اؤروں کی زبانی،
انگنت راہی گئے اس راہ سے، انکا پتہ کیا،
پر گئے کچھ لوگ اس پر چھوڑ پیروں کی نشانی،
یہ نشانی موک ہوکر بھی بہت کچھ بولتی ہے،
کھولھ اسکا ارتھ، پنتھی، پنتھ کا انومان کر لے۔
پوروَ چلنے کے بٹوہی، باٹ کی پہچان کر لے۔
ہے انشچت کس جگہ پر سرت، گرِ، گہور ملینگے،
ہے انشچت کس جگہ پر باغ ون سندر ملینگے،
کس جگہ یاترا ختم ہو جائیگی، یہ بھی انشچت،
ہے انشچت کب سمن، کب کنٹکوں کے شر ملینگے
کون سہسا چھوٹ جائینگے، ملینگے کون سہسا،
آ پڑے کچھ بھی، رکیگا تو ن، ایسی آن کر لے۔
پوروَ چلنے کے بٹوہی، باٹ کی پہچان کر لے۔
کون کہتا ہے کہ سوپنوں کو ن آنے دے ہردی میں،
دیکھتے سب ہیں انھیں اپنی عمر، اپنے سمی میں،
اور تو کر یتن بھی تو، مل نہیں سکتی سفلتا،
یہ ادی ہوتے لئے کچھ دھییی نینوں کے نلی میں،
کنتُ جگ کے پنتھ پر یدِ، سوپن دو تو ستی دو سو،
سوپن پر ہی مگدھ مت ہو، ستی کا بھی گیان کر لے۔
پوروَ چلنے کے بٹوہی، باٹ کی پہچان کر لے۔
سوپن آتا سورگ کا، درگ-کورکوں میں دیپتی آتی،
پنکھ لگ جاتے پگوں کو، للکتی انمکت چھاتی،
راستے کا ایک کانٹا، پانو کا دل چیر دیتا،
رقت کی دو بوند گرتیں، ایک دنیا ڈوب جاتی،
آنکھ میں ہو سورگ لیکن، پانو پرتھوی پر ٹکے ہوں،
کنٹکوں کی اس انوکھی سیخ کا سمان کر لے۔
پوروَ چلنے کے بٹوہی، باٹ کی پہچان کر لے۔
یہ برا ہے یا کہ اچھا، ویرتھ دن اس پر بتانا،
اب اسمبھو چھوڑ یہ پتھ دوسرے پر پگ بڑھانا،
تو اسے اچھا سمجھ، یاترا سرل اسسے بنیگی،
سوچ مت کیول تجھے ہی یہ پڑا من میں بٹھانا،
ہر سفل پنتھی یہی وشواس لے اس پر بڑھا ہے،
تو اسی پر آج اپنے چتّ کا اودھان کر لے۔
پوروَ چلنے کے بٹوہی، باٹ کی پہچان کر لے۔
آج مجھسے بول، بادل!
تم بھرا تو، تم بھرا میں،
غم بھرا تو، غم بھرا میں،
آج تو اپنے ہردی سے ہردی میرا تول، بادل
آج مجھسے بول، بادل!
آگ تجھمیں، آگ مجھمیں،
راگ تجھمیں، راگ مجھمیں،
آ ملیں ہم آج اپنے دوار ار کے کھولھ، بادل
آج مجھسے بول، بادل!
بھید یہ مت دیکھ دو پل-
کشار جل میں، تو مدھر جل،
ویرتھ میرے اشرو، تیری بوند ہے انمول، بادل
آج مجھسے بول، بادل!
گرم لوہا پیٹ، ٹھنڈا پیٹنے کو وقت بہتیرا پڑا ہے۔
سخت پنجہ، نس کسی چوڑی کلائی
اور بلیدار باہیں،
اور آنکھیں لال چنگاری سریکھی،
چست ؤ تیکھی نگاہیں،
ہاتھ میں گھن، اور دو لوہے نہائی
پر دھرے تو دیکھتا کیا؟
گرم لوہا پیٹ، ٹھنڈا پیٹنے کو وقت بہتیرا پڑا ہے۔
بھیگ اٹھتا ہے پسینے سے نہاتا
ایک سے جو جوجھتا ہے،
زوم میں تجھکو جوانی کے ن جانے
خبط کیا کیا سوجھتا ہے،
یا کسی نبھ دیوتا نیں دھییی سے کچھ
پھیر دی یوں بدھی تیری،
کچھ بڑا، تجھکو بنانا ہے کہ تیرا امتہاں ہوتا کڑا ہے۔
گرم لوہا پیٹ، ٹھنڑا پیٹنے کو وقت بہتیرا پڑا ہے۔
ایک گز چھاتی مگر سو گز برابر
حوصلہ اسمیں، صحیح ہے؛
قان کرنی چاہیے جو کچھ
تجربیکار لوگوں نے کہی ہے؛
سوپن سے لڑ سوپن کی ہی شکل میں ہے
لوہ کے ٹکڑے بدلتے
لوہ کا وہ ٹھوس بن کر ہے نکلتا جو کہ لوہے سے لڑا ہے۔
گرم لوہا پیٹ، ٹھنڑا پیٹنے کو وقت بہتیرا پڑا ہے۔
گھن ہتھوڑے اور تولے ہاتھ کی دے
چوٹ، اب تلوار گڑھ تو
اور ہے کس چیز کی تجھکو بھوشیت
مانگ کرتا آج پڑھ تو،
ؤ، امت سنتان کو اپنی تھما جا
دھاروالی یہ دھروہر
وہ اجت سنسار میں ہے شبد کا کھر کھڑگ لے کر جو کھڑا ہے۔
گرم لوہا پیٹ، ٹھنڈا پیٹنے کو وقت بہتیرا پڑا ہے۔
اسی گھر سے
ایک دن
شہید کا جنازہ نکلا تھا،
ترنگے میں لپٹا،
ہزاروں کی بھیڑ میں۔
کاندھا دینے کی ہوڑ میں
سینکڑوں کے کرتے پھٹے تھے،
پٹھے چھلے تھے۔
بھارت ماتا کی جی،
انکلاب زندہ باد،
انگریزی سرکار مرداباد
کے ناروں میں شہید کی ماں کا رودن
ڈوب گیا تھا۔
اسکے آنسؤ کی لڑی
پھول، کھیل، بتاشوں کی جھڑی میں
چھپ گئی تھی،
جنتا چلائی تھی-
تیرا نام سونے کے اکشروں میں لکھا جائیگا۔
گلی کسی گرو سے
دپ گئی تھی۔
اسی گھر سے
تیس برس بعد
شہید کی ماں کا جنازہ نکلا ہے،
ترنگے میں لپٹا نہیں،
(کیونکِ وہ خاص-خاص
لوگوں کے لیے وہت ہے)
کیول چار کاندھوں پر
رام نام ستی ہے
گوپال نام ستی ہے
کے پرانے ناروں پر؛
چرچہ ہے، بڑھییا بے-سہارا تھی،
جیون کے کشٹوں سے مکت ہئی،
گلی کسی راحتَ سے
چھئی چھئی۔
لہروں سے ڈر کر نوکا پار نہیں ہوتی
کوشش کرنے والوں کی ہار نہیں ہوتی
ننھیں چینٹی جب دانا لیکر چلتی ہے
چڑھتی دیواروں پر، سو بار پھسلتی ہے
من کا وشواس رگوں میں ساہس بھرتا ہے
چڑھکر گرنا، گرکر چڑھنا ن اکھرتا ہے
آخر اسکی محنت بے کار نہیں ہوتی
کوشش کرنے والوں کی ہار نہیں ہوتی
ڈبکیاں سندھُ میں گوتاکھور لگاتا ہے
جا جا کر خالی ہاتھ لوٹکر آتا ہے
ملتے نہیں سہج ہی موتی گہرے پانی میں
بڑھتا دگنا اتساہ اسی حیرانی میں
مٹھی اسکی خالی ہر بار نہیں ہوتی
کوشش کرنے والوں کی ہار نہیں ہوتی
اسپھلتا ایک چنوتی ہے، سویکار کرو
کیا کمی رہ گئی، دیکھو اور سدھار کرو
جب تک ن سفل ہو، نیند چین کو تیاگو تم
سنگھرش کا میدان چھوڑ مت بھاگو تم
کچھ کیے بنا ہی جی جی کار نہیں ہوتی
کوشش کرنے والوں کی ہار نہیں ہوتی
تراہِ، تراہِ کر اٹھتا جیون!
جب رجنی کے سونے کشن میں،
تن-من کے ایکاکیپن میں
کوی اپنی ووھل وانی سے اپنا ویاکل من بہلاتا،
تراہِ، تراہِ کر اٹھتا جیون!
جب ار کی پیڑھا سے روکر،
پھر کچھ سوچ سمجھ چپ ہوکر
ورہی اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے آنسو پونچھ ہٹاتا،
تراہِ، تراہِ کر اٹھتا جیون!
پنتھی چلتے-چلتے تھک کر،
بیٹھ کسی پتھ کے پتھر پر
جب اپنے ہی تھکت کروں سے اپنا وتھکت پانو دباتا،
تراہِ، تراہِ کر اٹھتا جیون!
اتنے مت انمتّ بنو!
جیون مدھشالا سے مدھو پی
بنکر تن-من-متوالہ،
گیت سنانے لگا جھومکر
چوم-چومکر میں پیالا-
شیش ہلاکر دنیا بولی،
پرتھوی پر ہو چکا بہت یہ،
اتنے مت انمتّ بنو۔
اتنے مت سنتپت بنو۔
جیون مرگھٹ پر اپنے سب
ارمانوں کی کر ہولی،
چلا راہ میں رودن کرتا
چتا-راکھ سے بھر جھولی-
شیش ہلاکر دنیا بولی،
پرتھوی پر ہو چکا بہت یہ،
اتنے مت سنتپت بنو۔
اتنے مت اتپت بنو۔
میرے پرتِ انیای ہوا ہے
گیات ہوا مجھکو جس کشن،
کرنے لگا اگنی-آننی ہو
گورو-گرجن، گروتر گرجن-
شیش ہلاکر دنیا بولی،
پرتھوی پر ہو چکا بہت یہ،
اتنے مت اتپت بنو۔
گیلے بادل، پیلے رجکن،
سوکھے پتے، روکھے ترن گھن
لیکر چلتا کرتا ''ہرہر''-اسکا گان سمجھ پاؤگے ؟
تم طوفان سمجھ پاؤگے ؟
گندھ-بھرا یہ مند پون تھا،
لہراتا اسسے مدھون تھا،
سہسا اسکا ٹوٹ گیا جو سوپن مہان، سمجھ پاؤگے ؟
تم طوفان سمجھ پاؤگے ؟
توڑ-مروڑ وٹپ-لتکائیں،
نوچ-کھسوٹ کسم-کلکائیں،
جاتا ہے اگیات دشا کو ! ہٹو وہنگم، اڑ جاؤگے !
تم طوفان سمجھ پاؤگے ؟
سوچا کرتا بیٹھ اکیلے،
گت جیون کے سکھ-دکھ جھیلے،
دنشنکاری سدھیوں سے میں ار کے چھالے سہلاتا ہوں!
ایسے میں من بہلاتا ہوں!
نہیں کھوجنے جاتا مرہم،
ہوکر اپنے پرتِ اتی نرمم،
ار کے گھاووں کو آنسو کے کھارے جل سے نہلاتا ہوں!
ایسے میں من بہلاتا ہوں!
آہ نکل مکھ سے جاتی ہے،
مانو کی ہی تو چھاتی ہے،
لاج نہیں مجھکو دیووں میں یدِ میں دربل کہلاتا ہوں!
ایسے میں من بہلاتا ہوں!
میں جگ-جیون کا بھار لئے پھرتا ہوں،
پھر بھی جیون میں پیار لئے پھرتا ہوں؛
کر دیا کسی نے جھنکرت جنکو چھوکر
میں ساسوں کے دو تار لئے پھرتا ہوں!
میں سنیہ-سرا کا پان کیا کرتا ہوں،
میں کبھی ن جگ کا دھیان کیا کرتا ہوں،
جگ پوچھ رہا ہے انکو، جو جگ کی گاتے،
میں اپنے من کا گان کیا کرتا ہوں!
میں نج ار کے ادگار لئے پھرتا ہوں،
میں نج ار کے اپہار لئے پھرتا ہوں؛
ہے یہ اپورن سنسار ن مجھکو بھاتا
میں سوپنوں کا سنسار لئے پھرتا ہوں!
میں جلا ہردی میں اگنی، دہا کرتا ہوں،
سکھ-دکھ دونوں میں مگن رہا کرتا ہوں؛
جگ بھاوَ-ساگر ترنے کو ناوَ بنائے،
میں بھوَ موجوں پر مست بہا کرتا ہوں!
میں یوون کا انماد لئے پھرتا ہوں،
انمادوں میں اوساد لئے پھرتا ہوں،
جو مجھکو باہر ہنسا، رلاتی بھیتر،
میں، ہای، کسی کی یاد لئے پھرتا ہوں!
کر یتن مٹے سب، ستی کسی نے جانا؟
نادان وحی ہیں، ہای، جہاں پر دانا!
پھر موڑھ ن کیا جگ، جو اس پر بھی سیکھے؟
میں سیخ رہا ہوں، سیکھا گیان بھولنا!
میں اور، اور جگ اور، کہاں کا ناطہ،
میں بنا-بنا کتنے جگ روز مٹاتا؛
جگ جس پرتھوی پر جوڑا کرتا ویبھو،
میں پرتِ پگ سے اس پرتھوی کو ٹھکراتا!
میں نج رودن میں راگ لئے پھرتا ہوں،
شیتل وانی میں آگ لئے پھرتا ہوں،
ہوں جسپر بھوپوں کے پرساد نچھاور،
میں اس کھنڈہر کا بھاگ لئے پھرتا ہوں!
میں رویا، اسکو تم کہتے ہو گانا،
میں پھوٹ پڑا، تم کہتے، چھند بنانا؛
کیوں کوِ کہکر سنسار مجھے اپنائے،
میں دنیا کا ہوں ایک نیا دیوانہ!
میں دیوانوں کا ایک ویش لئے پھرتا ہوں،
میں مادکتا نِ:شیش لئے پھرتا ہوں؛
جسکو سنکر جگ جھوم، جھکے، لہرائے،
میں مستی کا سندیش لئے پھرتا ہوں!
سوپن تھا میرا بھینکر!
رات کا-سا تھا اندھیرا،
بادلوں کا تھا ن ڈیرہ،
کنتُ پھر بھی چندر-تاروں سے ہوا تھا ہین امبر!
سوپن تھا میرا بھینکر!
کشین سریتا بہ رہی تھی،
کول سے یہ کہ رہی تھی-
شیگھر ہی میں سوکھنے کو، بھینٹ لے مجھکو ہردی بھر!
سوپن تھا میرا بھینکر!
دھار سے کچھ فاصلے پر
سر کفن کی اوڑھ چادر
ایک مردہ گا رہا تھا بیٹھکر جلتی چتا پر!
سوپن تھا میرا بھینکر!
گیت میرے، دیہری کا دیپ-ساپ بن۔
ایک دنیا ہے ہردی میں، مانتا ہوں،
وہ گھری تم سے، اسے بھی جانتا ہوں،
چھا رہا ہے کنتُ باہر بھی تمر-گھنر،
گیت میرے، دیہری کا دیپ-ساپ بن۔
پران کی لو سے تجھے جس کال باروں،
اور اپنے کنٹھ پر تجھکو سنواروں،
کہ اٹھے سنسار، آیا جیوتِ کا کشن،
گیت میرے، دیہری کا دیپ-ساپ بن۔
دور کر مجھمیں بھری تو کالما جب،
پھیل جائے وشو میں بھی لالما تب،
جانتا سیما نہیں ہے اگنی کا کن،
گیت میرے، دیہری کا دیپ-ساپ بن۔
جگ وبھامی ن تو کالی رات میری،
میں وبھامی تو نہیں جگتی اندھیری،
یہ رہے وشواس میرا یہ رہے پرن،
گیت میرے، دیہری کا دیپ-ساپ بن۔
آ رہی روِ کی سواری۔
نوَ-کرن کا رتھ سجا ہے،
کلِ-کسم سے پتھ سجا ہے،
بادلوں-سیدلوں انچروں نے سورن کی پوشاک دھاری۔
آ رہی روِ کی سواری۔
وہگ، بندی اور چارن،
گا رہی ہے کیرتِ-گاینِ،
چھوڑکر میدان بھاگی، تارکوں کی فوج ساری۔
آ رہی روِ کی سواری۔
چاہتا، اچھلوں وجی کہ،
پر ٹھٹھکتا دیکھکر یہ-
رات کا راجا کھڑا ہے، راہ میں بنکر بھکھاری۔
آ رہی روِ کی سواری۔
چھوڑ گھونسلا باہر آیا،
دیکھی ڈالیں، دیکھے پات،
اور سنی جو پتے ہلمل،
کرتے ہیں آپس میں بات؛-
ماں، کیا مجھکو اڑنا آیا؟
''نہیں، چرونگن، تو بھرمایا''
ڈالی سے ڈالی پر پہنچا،
دیکھی کلیاں، دیکھے پھول،
اوپر اٹھکر پھنگی جانی،
نیچے جھککر جانا مول؛-
ماں، کیا مجھکو اڑنا آیا؟
''نہیں، چرونگن، تو بھرمایا''
کچے-پکے پھل پہچانے،
کھائے اور گرائے کاٹ،
کھانے-گانے کے سب ساتھی،
دیکھ رہے ہیں میری باٹ؛-
ماں، کیا مجھکو اڑنا آیا؟
''نہیں، چرونگن، تو بھرمایا''
اس ترو سے اس ترو پر آتا،
جاتا ہوں دھرتی کی اور،
دانا کوئی کہیں پڑا ہو
چن لاتا ہوں ٹھوک-ٹھٹھور؛
ماں، کیا مجھکو اڑنا آیا؟
''نہیں، چرونگن، تو بھرمایا''
میں نیلے اگیات گگن کی
سنتا ہوں انوار پکار
کوئی اندر سے کہتا ہے
اڑ جا، اڑتا جا پر مار؛-
ماں، کیا مجھکو اڑنا آیا؟
''آج سپھل ہیں تیرے ڈینے،
آج سپھل ہے تیری کایا''
پیار کسی کو کرنا لیکن
کہ کر اسے بتانا کیا
اپنے کو ارپن کرنا پر
اور کو اپنانا کیا
گن کا گراہک بننا لیکن
گا کر اسے سنانا کیا
من کے کلپت بھاووں سے
اؤروں کو بھرم میں لانا کیا
لے لینا سگندھ سمنوں کی
توڑ انھے مرجھانا کیا
پریم ہار پہنانا لیکن
پریم پاش پھیلانا کیا
تیاگ انک میں پلے پریم ششُ
انمیں سوارتھ بتانا کیا
دے کر ہردی ہردی پانے کی
آشا ویرتھ لگانا کیا
مجھے ن اپنے سے کچھ پیار،
مٹٹی کا ہوں، چھوٹا دیپک،
جیوتِ چاہتی، دنیا جب تک،
میری، جل-جل کر میں اسکو دینے کو تییار،
پر یدِ میری لو کے دوار،
دنیا کی آنکھوں کو ندرت،
چکاچودھ کرتے ہوں چھدرت
مجھے بجھا دے بجھ جانے سے مجھے نہیں انکار
کیول اتنا لے وہ جان
مٹی کے دیپوں کے انتر
مجھمیں دیا پرکرتِ نے ہے کر
میں سجیو دیپک ہوں مجھ میں بھرا ہوا ہے مان
پہلے کر لے خوب وچار
تب وہ مجھ پر ہاتھ بڑھائے
کہیں ن پیچھے سے پچھتائے
بجھا مجھے پھر جلا سکیگی نہیں دوسری بار
لہر ساگر کا نہیں شرنگار،
اسکی وکلتا ہے؛
انل امبر کا نہیں کھلوار
اسکی وکلتا ہے؛
وودھ روپوں میں ہوا ساکار،
رنگو میں سرنجت،
مرتکا کا یہ نہیں سنسار،
اسکی وکلتا ہے۔
گندھ کلکا کا نہیں ادگار،
اسکی وکلتا ہے؛
پھول مدھون کا نہیں گلہار،
اسکی وکلتا ہے؛
کوکلا کا کون سا ویوہار،
رتپتِ کو ن بھایا؟
کوک کویل کی نہیں منہار،
اسکی وکلتا ہے۔
گان گایک کا نہیں ویاپار،
اسکی وکلتا ہے؛
راگ وینا کی نہیں جھنکار،
اسکی وکلتا ہے؛
بھاوناؤں کا مدھر آدھار
سانسو سے ونرمت،
گیت کوِ-ارِ کا نہیں اپہار،
اسکی وکلتا ہے۔