گوپال داس نیرج دی کویتا
ہے بہت اندھیار اب سورج نکلنا چاہیئے
جس ترہ سے بھی ہو یہ موسم بدلنا چاہیئے
روز جو چہرے بدلتے ہے لباسوں کی ترہ
اب جنازہ زور سے انکا نکلنا چاہیئے
اب بھی کچھ لوگوں نے بیچی ہے ن اپنی آتما
یہ پتن کا سلسلہ کچھ اور چلنا چاہیئے
پھول بن کر جو جییا وو یہاں مصلیٰ گیا
جیست کو فولاد کے سانچے میں ڈھلنا چاہیئے
چھنتا ہو جب تمھارا ہک کوئی اس وقت تو
آنکھ سے آنسو نہیں شعلہ نکلنا چاہیئے
دل جواں، سپنے جواں، موسم جواں، شب بھی جواں
تجھکو مجھسے اس سمی سونے میں ملنا چاہیئے
(پتن=گراوٹ، جیست=زندگی، شب=رات)
ہم تیری چاہ میں، اے یار ! وہاں تک پہنچے ۔
ہوش یہ بھی ن جہاں ہے کہ کہاں تک پہنچے ۔
اتنا معلوم ہے، خاموش ہے ساری مہفل،
پر ن معلوم، یہ خاموشی کہاں تک پہنچے ۔
وو ن گیانی، ن وو دھیانی، ن برہمن، ن وو شیخ،
وو کوئی اور تھے جو تیرے مکاں تک پہنچے ۔
ایک اس آس پے اب تک ہے میری بند جباں،
کلھ کو شاید میری آواز وہاں تک پہنچے ۔
چاند کو چھوکے چلے آئے ہیں وگیان کے پنکھ،
دیکھنا یہ ہے کہ انسان کہاں تک پہنچے ۔
1
اوس کی بوند
پھول پر سوئی جو
دھول میں ملی
2
وو ہیں اپنے
جیسے دیکھے ہیں میننے
کچھ سپنے
3
کسکو ملا
وفا کا دنییا میں
وفا ہی صلہ
4
ترنا ہے جو
بھوَ ساگر یار
کر بھرشٹاچار
5
کیوں شرمائے
تیرا یہ بانکپن
سبکو بھائے
6
راجنیتی ہے
ان دنوں ادیوگ
اسکو بھوگ
7
سونے کی کلی
مٹی بھرے جگ میں
کسکو ملی
8
من-منکا
پوجا کے سمی ہی
کہیں اٹکا
9
گھٹ-مٹکا
راستا ن جانے کوئی
پنگھٹ کا
10
او میرے میت
گا رے ہرپل تو
پریم کے گیت
11
کلھ کے پھول
مانگ رہے ہیں بھیکھ
چھوڑ سکول
12
کیسے ہو نیای
بچھڑے کو چاٹے جب
خود ہی گای
13
جیون کا یہ
ارنابھ کمل
نیتروں کا چھل
14
جینا ہے تو
نہیں ہونا نراش
رکھ وشواس
15
بکھری جب
رچنا بنی ایک
نول سرشٹ
16
سمٹی جب
رچنا بنی وحی
سرشٹ سے ویشٹ
17
میننے تو کی ہے
انسے یاری سدا
جو ہیں اکیلے
18
انجانے ہیں وے
کھڑے-کھڑے دور سے
دیکھیں جو میلے
19
من ہے کامی
کامی بنے آکامی
داس ہو سوامی
20
سرشٹ کا کھیل
آکاش پر چڑھی
الٹی بیل
21
دکھ ؤ سکھ
جنم مرن دونوں
ہیں یاترا کرم
22
پنچم سے ہیں
سپتم تک جیسے
سر سنگم
24
غریبی ہے یہ
امیری شڈینتر
اور یہ تنتر
25
سیوا کا کرم
سبسے بڑا یہاں
مانو-دھرمو
26
گنییے کچھ
سنیئے یا پڑھییے
پھر لکھیئے
27
چلنے کی ہے
کلھ کو میری باری
کری تییاری
28
جنم مرن
سمی کی گتی کے
ہیں دو چرن
29
میری جوانی
کٹے ہیے پنکھوں کی
ایک نشانی
30
ہے سورن کیشی
بھول ن یوون ہے
پنچھی ودیشی
31
کسسے کہیں
سب کے سب دکھ
خود ہی سہیں
32
ہے انجانی
جیون کی کہانی
کسنے جانی
(ہائکو=تنّ سطراں
والی جاپانی کاو-شیلی،
پنگھٹ=کھوہ، ارنابھ=
لال-رنگ، نول=نویں)
تمام امر میں اک اجنبی کے گھر میں رہا ۔
سفر ن کرتے ہئے بھی کسی سفر میں رہا ۔
وو جسم ہی تھا جو بھٹکا کییا زمانے میں،
ہردی تو میرا ہمیشہ تیری ڈگر میں رہا ۔
تو ڈھونڈھتا تھا جسے جا کے برج کے گوکل میں،
وو شیام تو کسی میرا کی چشمے-ترمے میں رہا ۔
وو اور ہی تھے جنھیں تھی خبر ستاروں کی،
میرا یہ دیش تو روٹی کی ہی خبر میں رہا ۔
ہزاروں رتن تھے اس جوہری کی جھولی میں،
اسے کچھ بھی ن ملا جو اگر-مگر میں رہا ۔
(ہردی=دل، ڈگر=گلی)
پھول پر ہنسکر اٹک تو، شول کو روکر جھٹک مت،
او پتھک ! تجھ پر یہاں ادھیکار سبکا ہے برابر !
باغ ہے یہ، ہر ترہ کی وایو کا اسمیں گمن ہے،
ایک ملیج کی ودھو تو ایک آندھی کی بہن ہے،
یہ نہیں ممکن کہ مدھورتو دیکھ تو پتجھر ن دیکھے،
قیمتی کتنی کہ چادر ہو پڑی سب پر شکن ہے،
دو برن کے سوت کی مالا پرکرتی ہے، کنتو پھر بھی-
ایک کونا ہے جہاں شررنگار سبکا ہے برابر !
پھول پر ہنسکر اٹک تو، شول کو روکر جھٹک مت،
او پتھک ! تجھ پر یہاں ادھیکار سبکا ہے برابر !
کوس مت اس رات کو جو پی گئی گھر کا سبیرا،
روٹھ مت اس سوپن سے جو ہو سکا جگ میں ن تیرا،
کھیج مت اس وقت پر، دے دوش مت ان بجلییوں کو-
جو گریں تب-تب کہ جب-جب تو چلا کرنے بسیرا،
سرشٹ ہے شطرنج ؤ' ہیں ہم سبھی مہرے یہاں پر
شاہ ہو پیدل کہ شہ پر وار سبکا ہے برابر !
پھول پر ہنسکر اٹک تو، شول کو روکر جھٹک مت،
او پتھک ! تجھ پر یہاں ادھیکار سبکا ہے برابر !
ہے ادا یہ پھول کی چھوکر انگلییاں روٹھ جانا،
سنیہ ہے یہ شول کا چبھ امر چھالوں کی بڑھانا،
مشکلیں کہتے جنھیں ہم راہ کی آشیش ہے وہ،
اور ٹھوکر نام ہے-بے ہوش پگ کو ہوش آنا،
ایک ہی کیول نہیں، ہیں پیار کے رشتے ہزاروں
اسلیئے ہر اشرو کو اپہار سبکا ہے برابر !
پھول پر ہنسکر اٹک تو، شول کو روکر جھٹک مت،
او پتھک ! تجھ پر یہاں ادھیکار سبکا ہے برابر !
دیکھ مت تو یہ کہ تیرے کون دائیں کون بائیں،
تو چلاچل بس کہ سب پر پیار کی کرتا ہوائیں،
دوسرا کوئی نہیں، وشام ہے دشمن ڈگر پر،
اسلیئے جو گالییاں بھی دے اسے تو دے دعائیں،
بول کڑوے بھی اٹھا لے، گیت میلے بھی دھلا لے،
کیونکِ بگییا کے لیئے گنجار سبکا ہے برابر !
پھول پر ہنسکر اٹک تو، شول کو روکر جھٹک مت،
او پتھک ! تجھ پر یہاں ادھیکار سبکا ہے برابر !
ایک بلبل کا جلا کلھ آشیانا جب چمن میں،
پھول مسکاتے رہے، چھلکا ن پانی تک نین میں،
سب مگن اپنے بھجن میں، تھا کسی کو دکھ ن کوئی،
صرف کچھ تنکے پڑے سر دھن رہے تھے اس ہون میں،
ہنس پڑا میں دیکھ یہ تو ایک جھرتا پات بولا-
''ہو مکھر یا موک ہاہاکار سبکا ہے برابر !''
پھول پر ہنسکر اٹک تو، شول کو روکر جھٹک مت،
او پتھک ! تجھ پر یہاں ادھیکار سبکا ہے برابر !
(پتھک=راہی، ملیج=چندن-وندن دی اپج،
مدھورتو=بسنت، شکن=وٹ، برن=رنگ، آشیانا=
آلھنا، مکھر=بولنا، موک=چپّ رہنا)
ایک دن میننے کہا یوں دیپ سے
''تو دھرا پر سوری کا اوتار ہے،
کسلیئے پھر سنیہ بن میرے بتا
تو ن کچھ، بس دھول-کنل نسار ہے ؟''
لو رہی چپ، دیپ ہی بولا مگر
''بات کرنا تک تجھے آتا نہیں،
ستی ہے سر پر چڑھا جب درپ ہو
آنکھ کا پردہ اتر پاتا نہیں۔
موڑھ ! کھلتا پھول یدی نج گندھ سے
مالییوں کا نام پھر چلتا کہاں ؟
میں سویں ہی آگ سے جلتا اگر
جیوتی کا گورو تجھے ملتا کہاں ؟''
(نسار=بے ارتھ، درپ=ہنکار)
بہت دنوں تک ہوا پرنی کا راس واسنا کے آنگن میں،
بہت دنوں تک چلا ترپت-ویاپار ترشا کے اوگنٹھن میں،
ادھروں پر دھر ادھر بہت دن تک سوئی بے ہوش جوانی،
بہت دنوں تک بندھی رہی گتی ناگپاش سے آلنگن میں،
آج کنتو جب جیون کا کٹو ستی مجھے للکار رہا ہے
کیسے ہلے نہیں سنہاسن میرے چر انت یوون کا ۔
بند کرو مدھو کی رس-بتییاں، جاگ اٹھا اب وش جیون کا ۔
میری کیا مجال تھی جو میں مدھو میں نج استتو ڈباتا،
جگ کے پاپ اور پنیوں کی سیما سے اوپر اٹھ جاتا،
کسی ادرشی شکتی کی ہی یہ سجل پریرنا تھی انتر میں،
پریرت ہو جسسے میرا ویکتتو بنا خود کا نرماتا،
جیون کا جو بھی پگ اٹھتا گرتا ہے جانے-انجانے،
وہ اتر ہے کیول من کے پریرت-بھاوَ-ابھاوَ-پرشن کا ۔
بند کرو مدھو کی رس-بتییاں، جاگ اٹھا اب وش جیون کا ۔
جسنے دے مدھو مجھے بنایا تھا پینے کا چر ابھیاسی،
آج وحی وش دے مجھکو دیکھتا کہ ترشنا کتنی پیاسی،
کرتا ہوں انکار اگر تو لجت مانوتا ہوتی ہے،
استو مجھے پینا ہی ہوگا وش بنکر وش کا وشواسی،
اور اگر ہے پیاس پربل، وشواس اٹل تو یہ نشچت ہے
کالکوٹ ہی یہ دیگا شبھ ستھان مجھے شو کے آسن کا ۔
بند کرو مدھو کی رس-بتییاں، جاگ اٹھا اب وش جیون کا ۔
آج پییا جب وش تب میننے سواد صحیح مدھو کا پایا ہے،
نیلکنٹھ بنکر ہی جگ میں ستی ہمیشہ مسکایا ہے،
سچ تو یہ ہے مدھو-وش دونوں ایک تتو کے بھنّ نام دو
دھر کر وش کا روپ، بہت سنبھوَ ہے، پھر مدھو ہی آیا ہے،
جو سکھ مجھے چاہیئے تھا جب ملا وحی ایکاکیپن میں
پھر لوں کیوں احسان ویرتھ میں ساقی کی چنچل چتون کا ۔
بند کرو مدھو کی رس-بتییاں، جاگ اٹھا اب وش جیون کا ۔
(پرنی=ملن، ترشا=پیاس، ادھر=بلھ، کٹو=کوڑا، مدھو=
شہد، استتو=ہوند، ترشنا=چاہ، کالکوٹ=زہر، نیلکنٹھ=
شوجی)
چلتے-چلتے تھک گئے پیر پھر بھی چلتا جاتا ہوں !
پیتے-پیتے مند گئے نین پھر بھی پیتا جاتا ہوں !
جھلسایا جگ نے یہ جیون اتنا کہ راکھ بھی جلتی ہے،
رہ گئی سانس ہے ایک صرف وہ بھی تو آج مچلتی ہے،
کیا ایسا بھی جلنا دیکھا-
جلنا ن چاہتا ہوں لیکن پھر بھی جلتا جاتا ہوں !
چلتے-چلتے تھک گئے پیر پھر بھی چلتا جاتا ہوں !
بسنے سے پہلے لٹتا ہے دیوانوں کا سنسار سگھر،
خود کی سمادھی پر دیپک بن جلتا پرانوں کا پیار مدھر،
کیسے سنسار بسے میرا-
ہوں کر سے بنا رہا لیکن پگ سے ڈھاتا جات ہوں !
چلتے-چلتے تھک گئے پیر پھر بھی چلتا جاتا ہوں !
مانو کا گاین وحی امر نبھ سے جاکر ٹکرائے جو،
مانو کا سور ہے وحی آہ میں بھی طوفان اٹھائے جو،
پر میرا سور، گاین بھی کیا-
جل رہا ہردی، رو رہے پران پھر بھی گاتا جاتا ہوں !
چلتے-چلتے تھک گئے پیر پھر بھی چلتا جاتا ہوں !
ہم جیون میں پروش کتنے اپنی کتنی لاچاری ہے،
ہم جیت جسے سب کہتے ہیں وہ جیت ہار کی باری ہے،
میری بھی ہار ذرا دیکھو-
آنکھوں میں آنسو بھرے کنتو ادھروں میں مسکاتا ہوں !
چلتے-چلتے تھک گئے پیر پھر بھی چلتا جاتا ہوں !
(کر=ہتھ، ادھر=بلھ)
کھگ ! اڈتے رہنا جیون بھر !
بھول گیا ہے تو اپنا پتھ،
اور نہیں پنکھوں میں بھی گتی،
کنتو لوٹنا پیچھے پتھ پر ارے، موت سے بھی ہے بدتر ۔
کھگ ! اڈتے رہنا جیون بھر !
مت ڈر پرلی جھکوروں سے تو،
بڑھ آشا ہلکوروں سے تو،
کشن میں یہ اری-دلی مٹ جاییگا تیرے پنکھوں سے پس کر ۔
کھگ ! اڈتے رہنا جیون بھر !
یدی تو لوٹ پڑیگا تھک کر،
اندھڑھ کال بونڈر سے ڈر،
پیار تجھے کرنے والے ہی دیکھینگے تجھ کو ہنس-ہنس کر ۔
کھگ ! اڈتے رہنا جیون بھر !
اور مٹ گیا چلتے چلتے،
منزل پتھ تی کرتے کرتے،
تیری خاک چڑھائیگا جگ انت بھال اور آکھوں پر ۔
کھگ ! اڈتے رہنا جیون بھر !
(کھگ=پنچھی، پتھ=راہ، کشن=چھن،
اری-دلی=ویری دی فوج، بونڈر=ورولا،
بھال=متھا)
(1)
موسم کیسا بھی رہے کیسی چلے بیار
بڑا کٹھن ہے بھولنا پہلا-پہلا پیار
(2)
بھارت ماں کے نین دو ہندو-مسلم جان
نہیں ایک کے بنا ہو دوجے کی پہچان
(3)
بنا دبایے رس ن دیں جیوں نیمبو اور عامَ
دبے بنا پورے ن ہوں تیوں سرکاری کام
(4)
امریکہ میں مل گیا جب سے انھیں پرویش
انکو بھاتا ہے نہیں اپنا بھارت دیش
(5)
جب تک کرسی جمے خالو اور دکھرام
تب تک بھرشٹاچار کو کیسے ملے ورام
(6)
پہلے چارہ چر گیے اب کھایینگے دیش
کرسی پر ڈاکو جمے دھر نیتا کا بھیش
(7)
کوییوں کی اور چور کی گتِ ہے ایک سامان
دل کی چوری کوی کرے لوٹے چور مکان
(8)
گو میں ہوں منجھدھار میں آج بنا پتوار
لیکن کتنوں کو کییا میننے ساگر پار
(9)
جب ہو چاروں ہی طرف گھور گھنا اندھیار
ایسے میں کھدیوت بھی پاتے ہیں ستکار
(10)
جنکو جانا تھا یہاں پڑھنے کو سکول
جوتوں پر پالش کریں وے بھوشی کے پھول
(11)
بھوکھا پیٹ ن جانتا کیا ہے دھرم-ادھرم
بیچ دیی سنتان تک، بھوکھ ن جانے شرم
(12)
دوہا ور ہے اور ہے کویتا ودھو کلین
جب اسکی بھانور پڑی جنمے ارتھ نوین
(13)
گاگر میں ساگر بھرے مندری میں نورتن
اگر ن یہ دوہا کرے، ہے سب ویرتھ پریتن
(14)
جہاں مرن جسکا لکھا وو بانک بن آئے
مرتیُ نہیں جایے کہیں، ویکتی وہاں خود جائے
(15)
ٹی وی نے ہم پر کییا یوں چھپ-چھپ کر وار
سنسکرتی سب گھایل ہئی بنا تیر-تلوار
(16)
دوربھاش کا دیش میں جب سے ہوا پرچار
تب سے گھر اعتے نہیں چٹھی پتری تار
(17)
آنکھوں کا پانی مرا ہم سبکا یوں آج
سوکھ گیے جل سروت سب اتنی آیی لاج
(18)
کریں ملاوٹ پھر ن کیوں ویاپاری ویاپار
جب کہ ملاوٹ سے بنے روز یہاں سرکار
(19)
رکے نہیں کوئی یہاں نامی ہو کہ انام
کوئی جایے صبح کو کوئی جایے شام
(20)
گیانی ہو پھر بھی ن کر درجن سنگ نواس
سرپ سرپ ہے، بھلے ہی منی ہو اسکے پاس
(21)
ادبھت اس گنتنتر کے ادبھت ہیں شڈینتر
سنت پڑے ہیں جیل میں، ڈاکو پھریں سوتنتر
(22)
راجنیتی کے کھیل یہ سمجھ سکا ہے کون
بہروں کو بھی بنٹ رہے اب موبائل فون
(23)
راجنیتی شطرنج ہے، وجی یہاں وو پای
جب راجا پھنستا دکھے پیدل دے پٹوای
(24)
بھکتوں میں کوئی نہیں بڑا سور سے نام
اسنے آنکھوں کے بنا دیکھ لییے گھنشیام
(25)
چیل، باز اور گدھّ اب گھیرے ہیں آکاش
کویل، مینا، شکوں کا پنجڑا ہے ادھواس
(26)
سیکیلر ہونے کا انھیں جب سے چڑھا جنون
پانی لگتا ہے انھیں ہر ہندو کا خون
(27)
ہندی، ہندو، ہند ہی ہے اسکی پہچان
اسیلیئے اس دیش کو کہتے ہندوستان
(28)
رہا چکتساشاستر جو جنسیوا کا کرم
آج ڈاکٹروں نے اسے بنا دییا بے شرم
(29)
دودھ پلایے ہاتھ جو ڈسے اسے بھی سانپ
دشٹ ن تیاگے دشٹتا کچھ بھی کر لیں آپ
(30)
توڑو، مسلو یا کہ تم اس پر ڈالو دھول
بدلے میں لیکن تمھیں خوشبو ہی دے پھول
(31)
پوجا کے سمع پوجی ہے جو بھی ہو ویوسای
اسمیں ایسے رمو جیوں جل میں دودھ سمای
(32)
ہم کتنا جیوت رہے، اسکا نہیں مہتو
ہم کیسے جیوت رہے، یہی تتو امرتوَ
(33)
جینے کو ہمکو ملے یدیپی دن دو-چار
جیئیں مگر ہم اس ترہ ہر دن بنیں ہزار
(34)
سیج ہے سونی سجن بن، پھولوں کے بن باغ
گھر سونا بچوں بنا، سیندر بنا سہاگ
(35)
یدی یوں ہی حاوی رہا اک سمدای وشیش
نشچت ہوگا ایک دن کھنڈ-کھنڈ یہ دیش
(36)
بندر چوکے ڈال کو، اور آشاڑھ کسان
دونوں کے ہی لیئے ہے یہ گتی مرن سامان
(37)
چڑییا ہے بن پنکھ کی کہتے جسکو آیو
اسسے جیادا تیز تو چلے ن کوئی وایو
(38)
برے دنوں میں کر نہیں کبھی کسی سے آس
پرچھائی بھی ساتھ دے، جب تک رہے پرکاش
(39)
یدی تم پییو شراب تو اتنا رکھنا یاد
اس شراب نے ہیں کییے، کتنے گھر برباد
(40)
جب کم ہو گھر میں جگہ ہو کم ہی سامان
اچت نہیں ہے جوڑنا تب جیادا میہمان
(41)
رہے شام سے صبح تک می کا نشہ خمار
لیکن دھن کا تو نشہ کبھی ن اترے یار
(42)
جیون پیچھے کو نہیں آگے بڑھتا نتی
نہیں پراتن سے کبھی سجے نیا ساہتی
(43)
رامراجی میں اس قدر پھیلی لوٹم-لوٹم
دام برائی کے بڑھے، سچائی پر چھوٹ
(44)
سنیہ، شانتی، سکھ، سدا ہی کرتے وہاں نواس
نشٹھا جس گھر ماں بنے، پتا بنے وشواس
(45)
جیون کا رستہ پتھک سیدھا سرل ن جان
بہت بار ہوتے غلط منزل کے انومان
(46)
کییا جائے نیتا یہاں، اچھا وحی شمار
سچ کہکر جو جھوٹھ کو دیتا گلے اتار
(47)
جب سے وو برگد گرا، بچھڑی اسکی چھانو
لگتا ایک اناتھ-سااتھ سبکا سب وو گانو
(48)
اپنا دیش مہان ہے، اسکا کیا ہے ارتھ
آرکشن ہیں چار کے، مگر ایک ہے برتھ
(49)
دیپک تو جلتا یہاں صرف ایک ہی بار
دل لیکن وو چیز ہے جلے ہزاروں بار
(50)
کاغذ کی ایک ناوَ پر میں ہوں آج سوار
اور اسی سے ہے مجھے کرنا ساگر پار
(بیار=ہوا، گو=بھاویں، کھدیوت=جگنو،
ٹٹہنا، بہرا=بولا، شک=طوطا،
سیکیلر=دھرم-نرپکھّ، دام=قیمت،
پتھک=راہی، برگد=بوہڑ، برتھ=تھاں،سیٹ)
وشو چاہے یا ن چاہے،
لوگ سمجھیں یا ن سمجھیں،
آ گئے ہیں ہم یہاں تو گیت گاکر ہی اٹھینگے ۔
ہر نظر غم گین ہے، ہر ہوٹھ نے دھونی رمائی،
ہر گلی ویران جیسے ہو کہ بیوہ کی کلائی،
خدکشی کر مر رہی ہے روشنی تب آنگنوں میں
کر رہا ہے آدمی جب چاند-تاروں پر چڑھائی،
پھر دییوں کا دم ن ٹوٹے،
پھر کرن کو تم ن لوٹے،
ہم جلے ہیں تو دھرا کو جگمگا کر ہی اٹھینگے ۔
وشو چاہے یا ن چاہے
ہم نہیں انمیں ہوا کے ساتھ جنکا ساز بدلے،
ساز ہی کیول نہیں انداز ؤ آواز بدلے،
ان فقیروں-سرپھروں کے ہم سفر ہم، ہم عمر ہم،
جو بدل جائیں اگر تو تخت بدلے تاج بدلے،
تم سبھی کچھ کام کر لو،
ہر ترہ بدنام کر لو،
ہم کہانی پیار کی پوری سناکر ہی اٹھینگے ۔
وشو چاہے یا ن چاہے
نام جسکا آنک گوری ہو گئی میلی سیاہی،
دے رہا ہے چاند جسکے روپ کی روکر گواہی،
تھام جسکا ہاتھ چلنا سیکھتی آندھی دھرا پر
ہے کھڑا اتہاس جسکے دوار پر بنکر سپاہی،
آدمی وہ پھر ن ٹوٹے،
وقت پھر اسکو ن لوٹے،
زندگی کی ہم نئی صورتَ بناکر ہی اٹھینگے ۔
وشو چاہے یا ن چاہے
ہم ن اپنے آپ ہی آئے دکھوں کے اس نگر میں،
تھا ملا تیرا نمنترن ہی ہمیں آدھے سفر میں،
کنتو پھر بھی لوٹ جاتے ہم بنا گائے یہاں سے
جو سبھی کو تو برابر تولتا اپنی نظر میں،
اب بھلے کچھ بھی کہے تو،
خوش کہ یا ناخوش رہے تو،
گانو بھر کو ہم صحیح حالت بتاکر ہی اٹھینگے ۔
وشو چاہے یا ن چاہے
اس سبھا کی سازشوں سے تنگ آکر، چوٹ کھاکر
گیت گائے ہی بنا جو ہیں گئے واپس مسافر
اور وے جو ہاتھ میں مزراب پہنے مشکلوں کی
دے رہے ہیں زندگی کے ساز کو سبسے نیا سور،
مور تم لاؤ ن لاؤ،
نیگ تم پاؤ ن پاؤ،
ہم انھیں اس دور کا دولھا بناکر ہی اٹھینگے ۔
وشو چاہے یا ن چاہے
(بیوہ=ودھوا، تم=ہنیرا)
مدھوپر کے گھنشیام اگر کچھ پوچھیں حالَ دکھی گوکل کا
انسے کہنا پتھک کہ اب تک انکی یاد ہمیں آتی ہے ۔
بالاپن کی پریتِ بھلاکر
وے تو ہئے محل کے واسی،
جپتے انکا نام یہاں ہم
یوون میں بنکر سنیاسی
ساون بنا ملھار بیتتا، پھاگن بنا پھاگ کٹ جاتا،
جو بھی رتو آتی ہے برج میں وہ بس آنسو ہی لاتی ہے۔
مدھوپر کے گھنشیام
بنا دییے کی دیوٹ جیسا
سونا لگے ڈگر کا میلہ،
سلگے جیسے گیلی لکڑی
سلگے پران سانجھ کی بیلا،
دھوپ ن بھائے چھانہ ن بھائے، ہنسی-کھشی کچھ نہیں سہائے،
ارتھی جیسے گزرے پتھ سے ایسے آیو کٹی جاتی ہے۔
مدھوپر کے گھنشیام
پچھوآ بن لوٹی پروائی،
ٹہو-ٹہو کر اٹھی ٹٹہری،
پر ن سرائی تنک ہمارے،
جیون کی جلتی دوپہری،
گھر بیٹھوں تو چین ن آئے، باہر جاؤں بھیڑ ستائے،
اتنا روگ بڑھا ہے اودھو ! کوئی دوا ن لگ پاتی ہے ۔
مدھوپر کے گھنشیام
لٹ جائے بارات کہ جیسے
لٹی-لٹی ہے ہر ابھلاشا،
تھکا-تھکا تن، بجھا-بجھا من،
مروتھل بیچ پتھک جیوں پیاسا،
دن کٹتا درگم پہاڑ-سااڑ جنم قید-سید رات گزرتی،
جیون وہاں رکا ہے اعتے جہاں خوشی ہر شرماتی ہے ۔
مدھوپر کے گھنشیام
قلم توڑتے بچپن بیتا،
پاتی لکھتے گئی جوانی،
لیکن پوری ہئی ن اب تک،
دو آخر کی پریم-کہانی،
اور ن بسراؤ-ترساؤ، جو بھی ہو اتر بھجواؤ،
سیاہی کی ہر بوند کہ اب شونت کی بوند بنی جاتی ہے ۔
مدھوپر کے گھنشیام
(ڈگر=گلی، شونت=لہو)
جتنا کم سامان رہے گا
اتنا سفر آسان رہے گا
جتنی بھاری گٹھری ہوگی
اتنا تو حیران رہے گا
اسسے ملنا ناممکن ہے
جب تک خود کا دھیان رہے گا
ہاتھ ملیں اور دل ن ملیں
ایسے میں نقصان رہے گا
جب تک مندر اور مسجد ہیں
مشکل میں انسان رہے گا
'نیرج' تو کلھ یہاں ن ہوگا
اسکا گیت-ودھان رہے گا
اب تو مذہب کوئی ایسا بھی چلایا جائے
جسمیں انسان کو انسان بنایا جائے
جسکی خوشبو سے مہک جای پڑوسی کا بھی گھر
پھول اس قسم کا ہر سمت کھلایا جائے
آگ بہتی ہے یہاں گنگا میں جیلھم میں بھی
کوئی بتلائے کہاں جاکے نہایا جائے
پیار کا خون ہوا کیوں یہ سمجھنے کے لیئے
ہر اندھیرے کو اجالے میں بلایا جائے
میرے دکھ-درد کا تجھ پر ہو اثر کچھ ایسا
میں رہوں بھوکھا تو تجھسے بھی ن کھایا جائے
جسم دو ہوکے بھی دل ایک ہوں اپنے ایسے
میرا آنسو تیری پلکوں سے اٹھایا جائے
گیت انمن ہے، غزل چپ ہے، روبائی ہے دکھی
ایسے ماحول میں 'نیرج' کو بلایا جائے
(سمت=طرف)
1
بادلوں سے سلام لیتا ہوں
وقت کے ہاتھ تھام لیتا ہوں
سارا میخانا جھوم اٹھتا ہے
جب میں ہاتھوں میں جام لیتا ہوں
2
خوشی جس نے کھوجی وو دھن لے کے لوٹا
ہنسی جس نے کھوجی چمن لے کے لوٹا
مگر پیار کو کھوجنے جو گیا وو
ن تن لے کے لوٹا ن من لے کے لوٹا
3
ہے پیار سے اسکی کوئی پہچان نہیں
جانا ہے کدھر اسکا کوئی گیان نہیں
تم ڈھونڈھ رہے ہو کسے اس بستی میں
اس دور کا انسان ہے انسان نہیں
4
اب کے ساون میں یہ شرارت میرے ساتھ ہئی
میرا گھر چھوڑ کے کل شہر میں برسات ہئی
آپ مت پوچھیئے کیا ہم پے سفر میں گزری
تھا لٹیروں کا جہاں گانو، وہیں رات ہئی
5
ہر صبح شام کی شرارت ہے
ہر خوشی اشک کی تزارت ہے
مجھسے ن پوچھو ارتھ تم یوں جیون کا
زندغی موت کی عبارت ہے
6
تن کی ہوس من کو گناہ گار بنا دیتی ہے
باغ کے باغ کو بیمار بنا دیتی ہے
بھوکھے پیٹوں کو دیشبھکتی سکھانے والو
بھوکھ انسان کو غدار بنا دیتی ہے
(اشک=ہنجھو، تزارت=وپار)
اندھیار ڈھل کر ہی رہے گا
آندھییاں چاہے اٹھاؤ،
بجلییاں چاہے گراؤ،
جل گیا ہے دیپ تو اندھیار ڈھل کر ہی رہے گا ۔
روشنی پونجی نہیں ہے، جو تجوری میں سمایے،
وہ کھلونا بھی ن، جسکا دام ہر گاہک لگایے،
وہ پسینے کی ہنسی ہے، وہ شہیدوں کی عمر ہے،
جو نیا سورج اگایے جب تڑپکر تلملایے،
اگ رہی لو کو ن ٹوکو،
جیوتی کے رتھ کو ن روکو،
یہ صبح کا دوت ہر تم کو نگلکر ہی رہے گا ۔
جل گیا ہے دیپ تو اندھیار ڈھل کر ہی رہے گا ۔
دیپ کیسا ہو، کہیں ہو، سوری کا اوتار ہے وہ،
دھوپ میں کچھ بھی ن، تم میں کنتو پہریدار ہے وہ،
دور سے تو ایک ہی بس پھونک کا وہ ہے تماشہ،
دیہہ سے چھو جای تو پھر وپلوی انگار ہے وہ،
ویرتھ ہے دیوار گڑھنا،
لاکھ لاکھ کواڑ جڑنا،
مرتکا کے ہاتھ میں امرت مچلکر ہی رہے گا ۔
جل گیا ہے دیپ تو اندھیار ڈھل کر ہی رہے گا ۔
ہے جوانی تو ہوا ہر ایک گھونگھٹ کھولتی ہے،
ٹوک دو تو آندھییوں کی بلییوں میں بولتی ہے،
وہ نہیں قانون جانے، وہ نہیں پرتبندھ مانے،
وہ پہاڑوں پر بدلییوں سی اچھلتی ڈولتی ہے،
جال چاندی کا لپیٹو،
خون کا سودا سمیٹو،
آدمی ہر قید سے باہر نکلکر ہی رہے گا ۔
جل گیا ہے دیپ تو اندھیار ڈھل کر ہی رہے گا ۔
وقت کو جسنے نہیں سمجھا اسے مٹنا پڑا ہے،
بچ گیا تلوار سے تو پھول سے کٹنا پڑا ہے،
کیوں ن کتنی ہی بڑی ہو، کیوں ن کتنی ہی کٹھن ہو،
ہر ندی کی راہ سے چٹان کو ہٹنا پڑا ہے،
اس صبح سے سندھی کر لو،
ہر کرن کی مانگ بھر لو،
ہے جگا انسان تو موسم بدلکر ہی رہے گا ۔
جل گیا ہے دیپ تو اندھیار ڈھل کر ہی رہے گا ۔
(دام=قیمت، تم=ہنیرا، وپلوی=ودروہی،
پرتبندھ=روک)
اب تم روٹھو، روٹھے سب سنسار، مجھے پرواہ نہیں ہے ۔
دیپ، سویں بن گیا شلبھ اب جلتے-جلتے،
منزل ہی بن گیا مسافر چلتے-چلتے،
گاتے گاتے گیی ہو گیا گایک ہی خود
ستی سوپن ہی ہوا سویں کو چھلتے چھلتے،
ڈوبے جہاں کہیں بھی تری وہیں اب تٹ ہے،
اب چاہے ہر لہر بنے منجھدھار مجھے پرواہ نہیں ہے ۔
اب تم روٹھو، روٹھے سب سنسار، مجھے پرواہ نہیں ہے ۔
اب پنچھی کو نہیں بسیرے کی ہے آشا،
اور باگباں کو ن بہاروں کی ابھلاشا،
اب ہر دوری پاس، دور ہے ہر سمیپتا،
ایک مجھے لگتی اب سکھ دکھ کی پریبھاشا،
اب ن اوٹھ پر ہنسی، ن آنکھوں میں ہیں آنسو،
اب تم پھینکو مجھ پر روز انگار، مجھے پرواہ نہیں ہے ۔
اب تم روٹھو، روٹھے سب سنسار، مجھے پرواہ نہیں ہے ۔
اب میری آواز مجھے ٹیرا کرتی ہے،
اب میری دنییاں میرے پیچھے پھرتی ہے،
دیکھا کرتی ہے، میری تصویر مجھے اب،
میری ہی چر پیاس امرت مجھ پر جھرتی ہے،
اب میں خود کو پوج، پوج تمکو لیتا ہوں،
بند رکھو اب تم مندر کے دوار، مجھے پرواہ نہیں ہے ۔
اب تم روٹھو، روٹھے سب سنسار، مجھے پرواہ نہیں ہے ۔
اب ہر ایک نظر پہچانی سی لگتی ہے،
اب ہر ایک ڈگر کچھ جانی سی لگتی ہے،
بات کییا کرتا ہے، اب سوناپن مجھسے،
ٹوٹ رہی ہر سانس کہانی سی لگتی ہے،
اب میری پرچھائی تک مجھسے ن الگ ہے،
اب تم چاہے کرو گھرنا یا پیار، مجھے پرواہ نہیں ہے ۔
اب تم روٹھو، روٹھے سب سنسار، مجھے پرواہ نہیں ہے ۔
(شلبھ=پتنگا، تری=کشتی)
آدمی کو پیار دو
سونی-سونی زندگی کی راہ ہے،
بھٹکی-بھٹکی ہر نظر-نگاہ ہے،
راہ کو سنوار دو،
نگاہ کو نکھار دو،
آدمی ہو تم کہ اٹھا آدمی کو پیار دو،
دلار دو ۔
روتے ہئے آنسوؤں کی آرتی اتار دو ۔
تم ہو ایک پھول کلھ جو دھول بنکے جائیگا،
آج ہے ہوا میں کلھ زمین پر ہی آئیگا،
چلتے وقت باغ بہت روئیگا-رلائیگا،
خاک کے سوا مگر ن کچھ بھی ہاتھ آئیگا،
زندگی کی خاک لیئے ہاتھ میں،
بجھتے-بجھتے سپنے لیئے ساتھ میں،
رک رہا ہو جو اسے بیار دو،
چل رہا ہو اسکا پتھ بہار دو۔
آدمی ہو تم کہ اٹھو آدمی کو پیار دو،
دلار دو۔
زندگی یہ کیا ہے- بس صبح کا ایک نام ہے،
پیچھے جسکے رات ہے اور آگے جسکے شام ہے،
ایک اور چھانہ سگھن، ایک اور گھام ہے،
جلنا-بجھنا، بجھنا-جلنا صرف جسکا کام ہے،
ن کوئی روک-تھام ہے،
خوف ناک-غارو-بییابان میں،
مرگھٹوں کے مردہ سنسان میں،
بجھ رہا ہو جو اسے انگار دو،
جل رہا ہو جو اسے ابھار دو،
آدمی ہو تم کہ اٹھو آدمی کو پیار دو،
دلار دو۔
زندگی کی آنکھوں پر موت کا خمار ہے،
اور پران کو کسی پییا کا انتظار ہے،
من کی منچلی کلی تو چاہتی بہار ہے،
کنتو تن کی ڈالی کو پتجھر سے پیار ہے،
قرار ہے،
پتجھر کے پیلے-پیلے ویش میں،
آندھییوں کے کالے-کالے دیش میں،
کھل رہا ہو جو اسے سنگار دو،
جھر رہا ہو جو اسے بہار دو،
آدمی ہو تم کہ اٹھو آدمی کو پیار دو،
دلار دو۔
پران ایک گایک ہے، درد ایک ترانہ ہے،
جنم ایک تارہ ہے جو موت کو بجانا ہے،
سور ہی رے! جیون ہے، سانس تو بہانہ ہے،
پیار ہی ایک گیت ہے جو بار-بار گانا ہے،
سبکو دہرانا ہے،
سانس کے سسک رہے ستار پر،
آنسوؤں کے گیلے-گیلے تار پر،
چپ ہو جو اسے ذرا پکار دو،
گا رہا ہو جو اسے ملھار دو،
آدمی ہو تم کہ اٹھو آدمی کو پیار دو،
دلار دو۔
ایک چاند کے بغیر ساری رات سیاہ ہے،
ایک پھول کے بنا چمن سبھی تباہ ہے،
زندگی تو خود ہی ایک آہ ہے کراہ ہے،
پیار بھی ن جو ملے تو جینا پھر گناہ ہے،
دھول کے پوتر نیتر-نیرر سے،
آدمی کے درد، داہ، پیر سے،
جو گھرنا کرے اسے بسار دو،
پیار کرے اس پے دل نثار دو،
آدمی ہو تم کہ اٹھو آدمی کو پیار دو،
دلار دو۔
روتے ہئے آنسوؤں کی آرتی اتار دو ۔
(گھام=دھپّ، نثار=قربان)
او ہر صبح جگانے والے، او ہر شام سلانے والے
دکھ رچنا تھا اتنا جگ میں، تو پھر مجھے نین مت دیتا
جس دروازے گیا، ملے بیٹھے ابھاوَ، کچھ بنے بھکھاری
پتجھر کے گھر، گروی تھی، من جو بھی موہ گئی پھلواری
کوئی تھا بدحال دھوپ میں، کوئی تھا غمغین چھانووں میں
مہلوں سے کٹییوں تک تھی سکھ کی دکھ سے رشتے داری
او ہر کھیل کھلانے والے ، او ہر رس رچانے والے
گھنے کھلونے تھے جو تیرے، گڑییوں کو بچپن مت دیتا
گیلے سب رومال اشرو کی پنہارن ہر ایک ڈگر تھی
شبنم کی بوندوں تک پر نردیی دھوپ کی کڑی نظر تھی
نرونشی تھے سوپن درد سے مکت ن تھا کوئی بھی آنچل
کچھ کے چوٹ لگی تھی باہر کچھ کے چوٹ لگی بھیتر تھی
او برسات بلانے والے او بادل برسانے والے
آنسو اتنے پیارے تھے تو موسم کو ساون مت دیتا
بھوخ پھلتی تھی یوں گلییوں میں ، جیوں پھلے یوون کنیر کا
بیچ زندگی اور موت کے فاصلہ تھا بس ایک منڈیر کا
مجبوری اس قدر دی بہاروں میں گانے والی بلبل کو
دو دانو کے لیئے کرنا پڑتا تھا کیرتن کلیر کا
او ہر پلنا جھلانے والے او ہر پلنگ بچھانے والے
سونا اتنا مشکل تھا، تو سکھ کے لاکھ سپن مت دیتا
یوں چلتی تھی ہاٹ کی بکتے پھول ، دام پاتے تھے مالی
دیپوں سے جیادا امیر تھی ، انگلی دیپ بجھانے والی
اور یہیں تک نہیں، آڑ لیکے سونے کے سہانسن کی
پونم کو بدچلن بتاتی تھی اماوس کی رجنی کالی
او ہر باغ لگانے والے او ہر نیڑ لگانے والے
اتنا تھا انیای جو جگ میں تو پھر مجھے ونمر وچن مت دیتا
کیا عجیب پیاس تھی اپنی عمر پی رہا تھا ہر پیالا
جینے کی کوشش میں مرتا جاتا تھا ہر جینے والا
کہنے کو سب تھے سمبندھی، لیکن آندھی کے تھے پتے
جب تک پریچت ہو آپس میں ، مرجھا جاتی تھی ہر مالا
او ہر چتر بنانے والے، او ہر راس رچانے والے
جھوٹھے تھی جو تصویریں تو یوون کو درپن مت دیتا
او ہر صبح جگانے والے او ہر شام سلانے والے
دکھ رچنا تھا اتنا جگ میں تو پھر مجھے نین مت دیتا
(گروی=گہنے،رہن، پنہارن=پانی بھرنوالی،
شبنم=تریل، رجنی=رات، نیڑ=آلھنا)
خوشبو سی آ رہی ہے ادھر ظعفران کی،
کھڑکی کھلی ہے گالبن انکے مکان کی
ہارے ہئے پرندے ذرا اڑ کے دیکھ تو،
آ جاییگی زمین پے چھت آسمان کی
بجھ جایے سرے عامَ ہی جیسے کوئی چراغ،
کچھ یوں ہے شروعات میری داستان کی
جیوں لوٹ لے قہار ہی دلہن کی پالکی،
حالت یہی ہے آجکل ہندوستان کی
اؤروں کے گھر کی دھوپ اسے کیوں پسند ہو
بیچی ہو جسنے روشنی اپنے مکان کی
جلپھوں کے پینچو-خمنچو میں اسے مت تلاشییے،
یہ شایری جباں ہے کسی بے زبان کی
'نیرج' سے بڑھکر اور دھنی ہے کون،
اسکے ہردی میں پیر ہے سارے جہان کی
(ظعفران=کیسر، گالبن=شاید،
داستان=کہانی، پیر=دکھ)
چھپ-چھپ اشرو بہانے والو، موتی ویرتھ بہانے والو
کچھ سپنوں کے مر جانے سے، جیون نہیں مرا کرتا ہے
سپنا کیا ہے، نین سیج پر
سویا ہوا آنکھ کا پانی
اور ٹوٹنا ہے اسکا جیوں
جاگے کچی نیند جوانی
گیلی عمر بنانے والو، ڈوبے بنا نہانے والو
کچھ پانی کے بہ جانے سے، ساون نہیں مرا کرتا ہے
مالا بکھر گیی تو کیا ہے
خود ہی حل ہو گیی سمسیا
آنسو گر نیلام ہئے تو
سمجھو پوری ہئی تپسیا
روٹھے دوس منانے والو، پھٹی قمیض سلانے والو
کچھ دیپوں کے بجھ جانے سے، آنگن نہیں مرا کرتا ہے
کھوتا کچھ بھی نہیں یہاں پر
کیول جلد بدلتی پوتھی
جیسے رات اتار چاندنی
پہنے صبح دھوپ کی دھوتی
وستر بدلکر آنے والو! چال بدلکر جانے والو !
چند کھلونوں کے کھونے سے بچپن نہیں مرا کرتا ہے ۔
لاکھوں بار گگرییاں پھوٹیں،
شکن ن آئی پنگھٹ پر،
لاکھوں بار کشتییاں ڈوبیں،
چہل-پہل وو ہی ہے تٹ پر،
تم کی عمر بڈھانے والو ! لو کی آیو گھٹانے والو !
لاکھ کرے پتجھر کوشش پر اپون نہیں مرا کرتا ہے ۔
لوٹ لییا مالی نے اپون،
لٹی ن لیکن گندھ پھول کی،
توپھانوں تک نے چھیڑا پر،
کھڑکی بند ن ہوئی دھول کی،
نفرت گلے لگانے والو ! سب پر دھول اڑانے والو !
کچھ مکھڑوں کی ناراضی سے درپن نہیں مرا کرتا ہے !
(شکن=وٹ، پنگھٹ=کھوہ)
جب بھی اس شہر میں کمرے سے میں باہر نکلا،
میرے سواگت کو ہر ایک جیب سے خنجر نکلا ۔
تتلییوں پھولوں کا لگتا تھا جہاں پر میلہ،
پیار کا گانو وو بارود کا دفتر نکلا ۔
ڈوب کر جسمے ابر پایا ن میں جیون بھر،
ایک آنسو کا وو قطرہ تو سمندر نکلا ۔
میرے ہوٹھوں پے دعا اسکی جباں پے غالی،
جسکے اندر جو چھپا تھا وحی باہر نکلا ۔
زندگی بھر میں جسے دیکھ کر اتراتا رہا،
میرا سب روپ وو مٹی کی دھروہر نکلا ۔
وو تیرے دوار پے ہر روز ہی آیا لیکن،
نیند ٹوٹی تیری جب ہاتھ سے اوسر نکلا ۔
روکھی روٹی بھی سدا بانٹ کے جسنے کھائی،
وو بھکھاری تو شہنشاہوں سے بڑھ کر نکلا ۔
کیا عجب ہے انسان کا دل بھی 'نیرج'
موم نکلا یہ کبھی تو کبھی پتھر نکلا ۔
(اتراتا=مان کردا سی، دھروہر=جائداد)
جلاؤ دیئے پر رہے دھیان اتنا
اندھیرا دھرا پر کہیں رہ ن جائے۔
نئی جیوتی کے دھر نئے پنکھ جھلمل،
اڑے مرتی مٹی گگن سورگ چھو لے،
لگے روشنی کی جھڑی جھوم ایسی،
نشا کی گلی میں تمر راہ بھولے،
کھلے مکتی کا وہ کرن دوار جگمگ،
اوشا جا ن پائے، نشا آ نہ پائے
جلاؤ دیئے پر رہے دھیان اتنا
اندھیرا دھرا پر کہیں رہ ن جائے۔
سرجن ہے ادھورا اگر وشو بھر میں،
کہیں بھی کسی دوار پر ہے اداسی،
منجتا نہیں پورن تب تک بنیگی،
کہ جب تک لہو کے لیئے بھومی پیاسی،
چلیگا سدا نعش کا کھیل یوں ہی،
بھلے ہی دیوالی یہاں روز آئے
جلاؤ دیئے پر رہے دھیان اتنا
اندھیرا دھرا پر کہیں رہ ن جائے۔
مگر دیپ کی دیپتی سے صرف جگ میں،
نہیں مٹ سکا ہے دھرا کا اندھیرا،
اتر کیوں ن آییں نکھت سب نین کے،
نہیں کر سکینگے ہردی میں اجیرا،
کٹینگے تبھی یہ اندھیرے گھرے اب،
سویں دھر منج دیپ کا روپ آئے
جلاؤ دیئے پر رہے دھیان اتنا
اندھیرا دھرا پر کہیں رہ ن جائے۔
(تمر=ہنیرا، اوشا=سویر، نشا=
رات، نکھت=ستارے)
تن تو آج سوتنتر ہمارا، لیکن من آزاد نہیں ہے
سچ مچ آج کاٹ دی ہمنے
زنجیریں سودیش کے تن کی
بدل دییا اتہاس، بدل دی
چال سمی کی چال پون کی
دیکھ رہا ہے رام-راجی کا
سوپن آج ساکیت ہمارا
خونی کفن اوڑھ لیتی ہے
لاش مگر دشرتھ کے پرن کی
مانو تو ہو گیا آج
آزاد داستا بندھن سے پر
مذہب کے پوتھوں سے ایشور کا جیون آزاد نہیں ہے ۔
تن تو آج سوتنتر ہمارا، لیکن من آزاد نہیں ہے ۔
ہم شونت سے سینچ دیش کے
پتجھر میں بہار لے آئے
کھاد بنا اپنے تن کی-
ہمنے نویگ کے پھول کھلائے
ڈال-ڈال میں ہمنے ہی تو
اپنی باہوں کا بل ڈالا
پات-پات پر ہمنے ہی تو
شرم-جلم کے موتی بکھرائے
قید قفس صیاد سبھی سے
بلبل آج سوتنتر ہماری
رتوؤں کے بندھن سے لیکن ابھی چمن آزاد نہیں ہے ۔
تن تو آج سوتنتر ہمارا، لیکن من آزاد نہیں ہے ۔
یدیپی کر نرمان رہے ہم
ایک نئی نگری تاروں میں
سیمت کنتُ ہماری پوجا
مندر-مسجد گرودواروں میں
یدیپی کہتے آج کہ ہم سب
ایک ہمارا ایک دیش ہے
گونج رہا ہے کنتو گھرنا کا
تار-بین کی جھنکاروں میں
گنگا-جمنا کے پانی میں
گھلی-ملی زندگی ہماری
ماسوموں کے گرم لہو سے پر دامن آزاد نہیں ہے ۔
تن تو آج سوتنتر ہمارا لیکن من آزاد نہیں ہے ۔
(شونت=لہو، شرم-جلم=پسینہ، قفس=
پنجرہ، صیاد=شکاری)
تب میری پیڑا اکلائی!
جگ سے نندت اور اپیکشت،
ہوکر اپنوں سے بھی پیڑت،
جب مانو نے کمپت کر سے ہا! اپنی ہی چتا بنائی!
تب میری پیڑا اکلائی!
ساندھی گگن میں کرتے مردو رو
اڑتے جاتے نیڑوں کو کھگ،
ہای! اکیلی بچھڑ رہی میں، کہکر جب کوکی چلائی!
تب میری پیڑا اکلائی!
جھنجھا کے جھونکوں میں پڑکر،
اٹک گئی تھی ناوَ ریت پر،
جب آنسو کی ندی بہاکر ناوک نے نج ناوَ چلائی!
تب میری پیڑا اکلائی!
(مردو=مٹھا، رو=رولا،بولدے، نیڑ=آلھنا،
کھگ=پنچھی، کوکی=کوئل)
میرے دیش اداس ن ہو، پھر دیپ جلیگا، تمر ڈھلیگا!
یہ جو رات چرا بیٹھی ہے چاند ستاروں کی ترنائی،
بس تب تک کر لے من مانی جب تک کوئی کرن ن آئی،
کھلتے ہی پلکیں پھولوں کی، بجتے ہی بھرمروں کی ونشی
چھنّ-بھنّ ہوگی یہ سیاہی جیسے تیز دھار سے کائی،
تم کے پانو نہیں ہوتے، وہ چلتا تھام جیتی کا انچل
میرے پیار نراش ن ہو، پھر پھول کھلیگا، سوری ملیگا!
میرے دیش اداس ن ہو، پھر دیپ جلیگا، تمر ڈھلیگا!
صرف بھومکا ہے بہار کی یہ آندھی-پتجھاروں والی،
کسی صبح کی ہی منزل ہے رجنی بجھے ستاروں والی،
اجڑیگھریے سونے آنگن، روتے نین، سسکتے ساون،
کیول وے ہیں بیج کہ جنسے اگنی ہے گیہوں کی بالی،
موک شانتی خود ایک کرانتی ہے، موک درشٹی خود ایک سرشٹی ہے
میرے سرجن ہتاش ن ہو، پھر دنج تھکیگا، منج چلیگا!
میرے دیش اداس ن ہو، پھر دیپ جلیگا، تمر ڈھلیگا!
ویرتھ نہیں یہ مٹی کا تپ، ویرتھ نہیں بلیدان ہمارا،
ویرتھ نہیں یہ گیلے آنچل، ویرتھ نہیں یہ آنسو دھارا،
ہے میرا وشواس اٹل، تم ڈانڑ ہٹا دو، پال گھرا دو،
بیچ سمندر ایک دوس ملنے آییگا سویں کنارہ،
من کی گتی پگ-گتی بن جایے تو پھر منزل کون کٹھن ہے؟
میرے لکشی نراش ن ہو، پھر جگ بدلیگا، مگ بدلیگا!
میرے دیش اداس ن ہو، پھر دیپ جلیگا، تمر ڈھلیگا!
جیون کیا ؟-تم بھرے نگر میں کسی روشنی کی پکار ہے،
دھونی جسکی اس پار اور پرتیدھونی جسکی دوسرے پار ہے،
سو سو بار مرن نے سیکر ہونٹھ اسے چاہا چپ کرنا،
پر دیکھا ہر بار بجاتی یہ بیٹھی کوئی ستار ہے،
سور مٹتا ہے نہیں، صرف اسکی آواز بدل جاتی ہے۔
میرے گیت اداس ن ہو، ہر تار بجیگا، کنٹھ کھلیگا!
میرے دیش اداس ن ہو، پھر دیپ جلیگا، تمر ڈھلیگا!
(تمر=ہنیرا، ترنائی=جوانی، رجنی=رات،
موک=چپّ، دنج=دینت، سویں=اپنے آپ، مگ=
راہ، پرتیدھونی=گونج)
تم جھوم جھوم گاؤ، روتے نین ہنساؤ،
میں ہر نگر ڈگھرِ کے کانٹے بہار دونگا۔
بھٹکی ہئی پون ہے،
سہمی ہئی کرن ہے،
ن پتہ نہیں صبح کا،
ہر اور تم گہن ہے،
تم دوار دوار جاؤ، پردے اگھار آؤ،
میں سوری-چاند سارے بھو پر اتار دونگا۔
تم جھوم جھوم گاؤ۔
گیلا ہریک آنچل،
ٹوٹی ہریک پایل،
ویاکل ہریک چتون،
گھایل ہریک کاجل،
تم سیج-سیج جاؤ، سپنے نئے سجاؤ،
میں ہر کلی علی کے پی کو پکار دونگا۔
تم جھوم جھوم گاؤ۔
ودھوا ہریک ڈالی،
ہر ایک نیڑ خالی،
گاتی ن کہیں کویل،
دکھتا ن کہیں مالی،
تم باغ جاؤ، ہر پھول کو جگاؤ،
میں دھول کو اڑاکر سبکو بہار دونگا۔
تم جھوم جھوم گاؤ۔
مٹی اجل رہی ہے،
دھرتی سمبھل رہی ہے،
انسان جگ رہا ہے،
دنییا بدل رہی ہے،
تم کھیت کھیت جاؤ، دو بیج ڈال آؤ،
اتہاس سے ہئی میں غلطی سدھار دونگا۔
تم جھوم-جھوم گاؤ۔
(اور=طرف، علی=بھورا)
تم دیوالی بنکر جگ کا تم دور کرو،
میں ہولی بنکر بچھڑے ہردی ملاؤنگا!
سونی ہے مانگ نشا کی چندہ اگا نہیں
ہر دوار پڑا خاموش سویرا روٹھ گیا،
ہے گگن وکل، آ گیا ستاروں کا پتجھر
تم ایسا ہے کہ اجالے کا دل ٹوٹ گیا،
تم جاؤ گھر-گھر دیپک بنکر مسکاؤ
میں بھال-بھال پر کنکم بن لگ جاؤنگا!
تم دیوالی بنکر جگ کا تم دور کرو،
میں ہولی بنکر بچھڑے ہردی ملاؤنگا!
کر رہا نرتی ودھونس، سرجن کے تھکے چرن،
سنسکرتی کی اتی ہو رہی، کردھت ہیں درواسا،
بک رہی دروپدی نگن کھڑی چوراہے پر،
پڑھ رہا کنتو ساہتی ستاروں کی بھاشا،
تم گاکر دیپک راگ جگا دو مردوں کو
میں جیوت کو جینے کا ارتھ بتاؤنگا!
تم دیوالی بنکر جگ کا تم دور کرو،
میں ہولی بنکر بچھڑے ہردی ملاؤنگا!
اس قدر بڑھ رہی ہے بے بسی بہاروں کی
پھولوں کو مسکانا تک منا ہو گیا ہے،
اس ترہ ہو رہی ہے پشوتا کی پشو-کریڑا
لگتا ہے دنییا سے انسان کھو گیا ہے،
تم جاؤ بھٹکوں کو راستا بتا آؤ
میں اتہاس کو نیے صفے دے جاؤنگا!
تم دیوالی بنکر جگ کا تم دور کرو،
میں ہولی بنکر بچھڑے ہردی ملاؤنگا!
میں دیکھ رہا نندن سی چندن بگییا میں،
رقت کے بیج پھر بونے کی تییاری ہے،
میں دیکھ رہا پریمل پراگ کی چھایا میں
اڑ کر آ بیٹھی پھر کوئی چنگاری ہے،
پینے کو یہ سب آگ بنو یدی تم ساون
میں تلواروں سے میگھ-ملھار گواؤنگا!
تم دیوالی بنکر جگ کا تم دور کرو،
میں ہولی بنکر بچھڑے ہردی ملاؤنگا!
جب کھیل رہی ہے ساری دھرتی لہروں سے
تب کب تک تٹ پر اپنا رہنا سنبھوَ ہے!
سنسار جل رہا ہے جب دکھ کی جوالا میں
تب کیسے اپنے سکھ کو سہنا سنبھوَ ہے!
مٹتے مانو اور مانوتا کی رکشا میں
پرء! تم بھی مٹ جانا، میں بھی مٹ جاؤنگا!
تم دیوالی بنکر جگ کا تم دور کرو،
میں ہولی بنکر بچھڑے ہردی ملاؤنگا!
(بھال=متھا، کنکم=سندھور، ودھونس=وناش،
اتی=انت، کردھت=غصے، کریڑا=کھیڈ، جوالا=
اگّ)
تمھارے بنا آرتی کا دییا یہ
ن بجھ پا رہا ہے ن جل پا رہا ہے۔
بھٹکتی نشا کہ رہی ہے کہ تم میں
دیئے سے کرن پھوٹنا ہی اچت ہے،
شلبھ چیکھتا پر بنا پیار کے تو
ودھر سانس کا ٹوٹنا ہی اچت ہے،
اسی دوند میں رات کا یہ مسافر
ن رک پا رہا ہے، ن چل پا رہا ہے۔
تمھارے بنا آرتی کا دییا یہ
ن بجھ پا رہا ہے، ن جل پا رہا ہے۔
ملن نے کہا تھا کبھی مسکرا کر
ہنسو پھول بن وشو-بھرشو کو ہنساؤ،
مگر کہ رہا ہے ورہ اب سسک کر
جھرا رات-دن اشرو کے شو اٹھاؤ،
اسی سے نین کا وکل جل-کسم یہ
ن جھر پا رہا ہے، ن کھل پا رہا ہے۔
تمھارے بنا آرتی کا دییا یہ
ن بجھ پا رہا ہے، ن جل پا رہا ہے۔
کہاں دیپ ہے جو کسی اروشی کی
کرن-انگلییوں کو چھوئے بنا جلا ہو؟
بنا پیار پائے کسی موہنی کا
کہاں ہے پتھک جو نشا میں چلا ہو!
اچمبھا ارے کون پھر جو تمر یہ
ن گل پا رہا ہے، ن ڈھل پا رہا ہے۔
تمھارے بنا آرتی کا دییا یہ
ن بجھ پا رہا ہے، ن جل پا رہا ہے۔
کسے ہے پتہ دھول کے اس نگر میں
کہاں مرتیُ ورمال لیکر کھڑی ہے؟
کسے گیات ہے پران کی لو چھپائے
چتا میں چھپی کون-سین پھلجھڑی ہے؟
اسی سے یہاں راج ہر زندگی کا
ن چھپ پا رہا ہے، ن کھل پا رہا ہے۔
تمھارے بنا آرتی کا دییا یہ
ن بجھ پا رہا ہے، ن جل پا رہا ہے۔
(شلبھ=پتنگا، دوند=دوچتی، شو=
لاش، کسم=پھلّ، پتھک=راہی، نشا=
رات)
جی اٹھے شاید شلبھ اس آس میں
رات بھر رو رو، دییا جلتا رہا۔
تھک گیا جب پرارتھنا کا پنی، بل،
سو گیی جب سادھنا ہوکر وپھل،
جب دھرا نے بھی نہیں دھیرج دییا،
وینگ جب آکاش نے ہنسکر کییا،
آگ تب پانی بنانے کے لیئے-
رات بھر رو رو، دییا جلتا رہا۔
جی اٹھے شاید شلبھ اس آس میں
رات بھر رو رو، دییا جلتا رہا۔
بجلییوں کا چیر پہنے تھی دشا،
آندھییوں کے پر لگایے تھی نشا،
پروتوں کی بانہہ پکڑے تھا پون،
سندھو کو سر پر اٹھایے تھا گگن،
سب رکے، پر پریتِ کی ارتھی لییے،
آنسوؤں کا کارواں چلتا رہا۔
جی اٹھے شاید شلبھ اس آس میں
رات بھر رو رو، دییا جلتا رہا۔
کانپتا تم، تھرتھراتی لو رہی،
آگ اپنی بھی ن جاتی تھی صحیح،
لگ رہا تھا کلپ-ساپ ہر ایک پل
بن گیی تھیں سسکییاں سانسیں وکل،
پر ن جانے کیوں عمر کی ڈور میں
پران بندھ تل تل سدا گلتا رہا ؟
جی اٹھے شاید شلبھ اس آس میں
رات بھر رو رو، دییا جلتا رہا۔
سو مرن کی نیند نشِ پھر پھر جگی،
شول کے شو پر کلی پھر پھر اگی،
پھول مدھپوں سے بچھڑکر بھی کھلا،
پنتھ پنتھی سے بھٹککر بھی چلا
پر بچھڑ کر ایک کشن کو جنم سے
آیو کا یوون سدا ڈھلتا رہا۔
جی اٹھے شاید شلبھ اس آس میں
رات بھر رو رو، دییا جلتا رہا۔
دھول کا آدھار ہر اپون لییے،
مرتیُ سے شرنگار ہر جیون کییے،
جو امر ہے وہ ن دھرتی پر رہا،
مرتی کا ہی بھار مٹی نے سحا،
پریم کو امرتوَ دینے کو مگر،
آدمی خود کو سدا چھلتا رہا۔
جی اٹھے شاید شلبھ اس آس میں
رات بھر رو رو، دییا جلتا رہا۔
(سندھو=ساگر، تم=ہنیرا، شول=کنڈا،
مدھپ=بھورے)
دییے سے مٹیگا ن من کا اندھیرا
دھرا کو اٹھاؤ، گگن کو جھکاؤ!
بہت بار آئی-گئی یہ دیوالی
مگر تم جہاں تھا وہیں پر کھڑا ہے،
بہت بار لو جل-بجھی پر ابھی تک
کفن رات کا ہر چمن پر پڑا ہے،
ن پھر سوری روٹھے، ن پھر سوپن ٹوٹے
اوشا کو جگاؤ، نشا کو سلاؤ!
دییے سے مٹیگا ن من کا اندھیرا
دھرا کو اٹھاؤ، گگن کو جھکاؤ!
سرجن شانتی کے واسطے ہے ضروری
کہ ہر دوار پر روشنی گیت گایے
تبھی مکتی کا یگء یہ پورن ہوگا،
کہ جب پیار تلوار سے جیت جایے،
گھرنا بڑھ رہی ہے، اما چڑھ رہی ہے
منج کو جلاؤ، دنج کو مٹاؤ!
دییے سے مٹیگا ن من کا اندھیرا
دھرا کو اٹھاؤ، گگن کو جھکاؤ!
بڑے ویگمی پنکھ ہیں روشنی کے
ن وہ بند رہتی کسی کے بھون میں،
کییا قید جسنے اسے شکتی چھل سے
سویں اڑ گیا وہ دھنا بن پون میں،
ن میرا-تمھارا سبھی کا پرہر یہ
اسے بھی بلاؤ، اسے بھی بلاؤ!
دییے سے مٹیگا ن من کا اندھیرا
دھرا کو اٹھاؤ، گگن کو جھکاؤ!
مگر چاہتے تم کہ سارا اجالا
رہے داس بنکر سدا کو تمھارا،
نہیں جانتے پھوس کے گیہ میں پر
بلاتا صبح کس ترہ سے انگارا،
ن پھر اگنی کوئی رچے راس اسسے
سبھی رو رہے آنسوؤں کو ہنساؤ!
دییے سے مٹیگا ن من کا اندھیرا
دھرا کو اٹھاؤ، گگن کو جھکاؤ!
(اوشا=سویر، اما=ہنیری رات،
گیہ=گھر)
اردھ ستی تم، اردھ سوپن تم، اردھ نراشا-آشااشا
اردھ اجت-جت، اردھ ترپت تم، اردھ اترپت-پپاسات،
آدھی کایا آگ تمھاری، آدھی کایا پانی،
اردھانگنی ناری! تم جیون کی آدھی پریبھاشا۔
اس پار کبھی، اس پار کبھی
تم بچھڑے-ملے ہزار بار،
اس پار کبھی، اس پار کبھی۔
تم کبھی اشرو بنکر آنکھوں سے ٹوٹ پڑے،
تم کبھی گیت بنکر سانسوں سے پھوٹ پڑے،
تم ٹوٹے-جڑے ہزار بار
اس پار کبھی، اس پار کبھی۔
تم کے پتھ پر تم دیپ جلا دھر گئے کبھی،
کرنوں کی گلییوں میں کاجل بھر گئے کبھی،
تم جلے-بجھے پرء! بار-بار،
اس پار کبھی، اس پار کبھی۔
پھولوں کی ٹولی میں مسکاتے کبھی ملے،
شولوں کی بانہوں میں اکلاتے کبھی ملے،
تم کھلے-جھرے پرء! بار-بار،
اس پار کبھی، اس پار کبھی۔
تم بنکر سوپن تھکے، سدھی بنکر چلے ساتھ،
دھڑکن بن جیون بھر تم باندھے رہے گات،
تم رکے-چلیے پرء! بار-بار،
اس پار کبھی، اس پار کبھی۔
تم پاس رہے تن کے، تب دور لگے من سے،
جب پاس ہئے من کے، تب دور لگے تن سے،
تم بچھڑے-ملے ہزار بار،
اس پار کبھی، اس پار کبھی۔
اب زمانے کو خبر کر دو کہ 'نیرج' گا رہا ہے
جو جھکا ہے وہ اٹھے اب سر اٹھائے،
جو روکا ہے وہ چلے نبھ چوم آئے،
جو لٹا ہے وہ نئے سپنے سجائے،
ظلم-شوشن کو کھلی دیکر چنوتی،
پیار اب تلوار کو بہلا رہا ہے۔
اب زمانے کو خبر کر دو کہ 'نیرج' گا رہا ہے
ہر چھلکتی آنکھ کو وینا تھما دو،
ہر سسکتی سانس کو کویل بنا دو،
ہر لٹے سنگار کو پایل پنھا دو،
چاندنی کے کنٹھ میں ڈالے بھجائیں،
گیت پھر مدھوماس لانے جا رہا ہے۔
اب زمانے کو خبر کر دو کہ 'نیرج' گا رہا ہے
جا کہو تم سے کرے واپس ستارے،
مانگ لو بڑھکر دھوئیں سے اب انگارے،
بجلییوں سے بول دو گھونگھٹ اگھارے،
پہن لپٹوں کا مکٹ کالی دھرا پر،
سوری بنکر آج شرم مسکا رہا ہے۔
اب زمانے کو خبر کر دو کہ 'نیرج' گا رہا ہے
شوشنوں کی ہاٹ سے لاشیں ہٹاؤ،
مرگھٹوں کو کھیت کی خوشبو سنگھاؤں،
پتجھروں میں پھول کے گھنگھرو بجاؤ،
ہر قلم کی نوک پر میں دیکھتا ہوں،
سورگ کا نقشہ اترتا آ رہا ہے۔
اب زمانے کو خبر کر دو کہ 'نیرج' گا رہا ہے
اس ترہ پھر موت کی ہوگی ن شادی،
اس ترہ پھر خون بیچیگی ن چاندی،
اس ترہ پھر نیڑ نگلیگی ن آندھی،
شانتی کا جھنڈا لیئے کر میں ہمالی،
راستا سنسار کو دکھلا رہا ہے۔
اب زمانے کو خبر کر دو کہ 'نیرج' گا رہا ہے
(نبھ=آکاش، شوشن=لٹّ، مدھوماس=بسنت،
تم=ہنیرا، شرم=محنت، مرگھٹ=شمشان،
نیڑ=آلھنا، کر=ہتھ)
پیر میری، پیار بن جا !
لٹ گیا سروسو، جیون،
ہے بنا بس پاپ-ساپ دھن،
رے ہردی، مدھو-کوش اکشی، اب انل-انگار بن جا !
پیر میری، پیار بن جا !
استھی-پنجر سے لپٹ کر،
کیوں تڑپتا آہ بھر بھر،
چرودھر میرے وکل ار، جل ارے جل، چھار بن جا !
پیر میری، پیار بن جا !
کیوں جلاتی ویرتھ مجھکو !
کیوں رلاتی ویرتھ مجھکو !
کیوں چلاتی ویرتھ مجھکو !
ری امر مرو-پیاس، میری مرتیُ ہی ساکار بن جا !
پیر میری، پیار بن جا !
(انل=اگّ، ار=دل، چھار=سواہ)
پیار کی کہانی چاہیئے
آدمی کو آدمی بنانے کے لیئے
زندگی میں پیار کی کہانی چاہیئے
اور کہنے کے لیئے کہانی پیار کی
سیاہی نہیں، آنکھوں والا پانی چاہیئے۔
جو بھی کچھ لٹا رہے ہو تم یہاں
وو ہی بس تمھارے ساتھ جائیگا،
جو چھپاکے رکھا ہے تجوری میں
وو تو دھن ن کوئی کام آئیگا،
سونے کا یہ رنگ چھوٹ جانا ہے
ہر کسی کا سنگ چھوٹ جانا ہے
آخری سفر کے انتظام کے لیئے
جیب بھی کفن میں اک لگانی چاہیئے۔
آدمی کو آدمی بنانے کے لیئے
زندگی میں پیار کی کہانی چاہیئے
راگنی ہے ایک پیار کی
زندگی کہ جسکا نام ہے
گاکے گر کٹے تو ہے صبح
روکے گر کٹے تو شام ہے
شبد اور گیان ویرتھ ہے
پوجا-پاٹھ دھیان ویرتھ ہے
آنسوؤں کو گیتوں میں بدلنے کے لیئے،
لو کسی یار سے لگانی چاہیئے
آدمی کو آدمی بنانے کے لیئے
زندگی میں پیار کی کہانی چاہیئے
جو دکھوں میں مسکرا دییا
وو تو اک گلاب بن گیا
دوسروں کے ہک میں جو مٹا
پیار کی کتاب بن گیا،
آگ اور انگارا بھول جا
تیغ اور ددھارا بھول جا
درد کو مشال میں بدلنے کے لیئے
اپنی سب جوانی خود جلانی چاہیئے۔
آدمی کو آدمی بنانے کے لیئے
زندگی میں پیار کی کہانی چاہیئے
درد گر کسی کا تیرے پاس ہے
وو خدا تیرے بہت قریب ہے
پیار کا جو رس نہیں ہے آنکھوں میں
کیسا ہو امیر تو غریب ہے
کھاتہ اور بہی تو رے بہانہ ہے
چیک اور صحیح تو رے بہانہ ہے
سچی ساکھ منڈی میں کمانے کے لیئے
دل کی کوئی ہنڈی بھی بھنانی چاہیئے۔
پریم-پتھریم ہو ن سونا کبھی اسلیئے
جس جگہ میں تھکوں، اس جگہ تم چلو۔
کبر-سیر مون دھرتی پڑی پانو پرل
شیش پر ہے کفن-سان گھرا آسماں،
موت کی راہ میں، موت کی چھانہ میں
چل رہا رات-دن سانس کا کارواں،
جا رہا ہوں چلا، جا رہا ہوں بڑھا،
پر نہیں گیات ہے کس جگہ ہو؟
کس جگہ پگ رکے، کس جگہ مگر چھٹے
کس جگہ شیت ہو، کس جگہ گھام ہو،
مسکرائے سدا پر دھرا اسلیئے
جس جگہ میں جھروں اس جگہ تم کھلو۔
پریم-پتھریم ہو ن سونا کبھی اسلیئے،
جس جگہ میں تھکوں، اس جگہ تم چلو۔
پریم کا پنتھ سونا اگر ہو گیا،
رہ سکیگی بسی کون-سین پھر گلی؟
یدی کھلا پریم کا ہی نہیں پھول تو،
کون ہے جو ہنسے پھر چمن میں کلی؟
پریم کو ہی ن جگ میں ملا مان تو
یہ دھرا، یہ بھون صرف شمشان ہے،
آدمی ایک چلتی ہئی لاش ہے،
اور جینا یہاں ایک اپمان ہے،
آدمی پیار سیکھے کبھی اسلیئے
رات-دن میں ڈھلوں، رات-دن تم ڈھلو۔
پریم-پتھریم ہو ن سونا کبھی اسلیئے،
جس جگہ میں تھکوں، اس جگہ تم چلو۔
ایک دن کال-تمل کی کسی رات نے
دے دییا تھا مجھے پران کا یہ دییا،
دھار پر یہ جلا، پار پر یہ جلا
بار اپنا ہییا وشو کا تم پییا،
پر چکا جا رہا سانس کا سنیہ اب
روشنی کا پتھک چل سکیگا نہیں،
آندھییوں کے نگر میں بنا پیار کے
دیپ یہ بھور تک جل سکیگا نہیں،
پر چلے سنیہ کی لو سدا اسلیئے
جس جگہ میں بجھوں، اس جگہ تم جلو۔
پریم-پتھریم ہو ن سونا کبھی اسلیئے
جس جگہ میں تھکوں، اس جگہ تم چلو۔
روز ہی باغ میں دیکھتا ہوں صبح،
دھول نے پھول کچھ ادھکھلے چن لیئے،
روز ہی چیختا ہے نشا میں گگن-
'کیوں نہیں آج میرے جلے کچھ دیئے ؟'
اس ترہ پران! میں بھی یہاں روز ہی،
ڈھل رہا ہوں کسی بوند کی پیاس میں،
جی رہا ہوں دھرا پر، مگر لگ رہا
کچھ چھپا ہے کہیں دور آکاش میں،
چھپ ن پائے کہیں پیار اسلیئے
جس جگہ میں چھپوں، اس جگہ تم ملو۔
(گیات=پتہ نہیں، گھام=دھپّ، بھور=
سویر، نشا=رات، دھرا=دھرتی)
پریم کو ن دان دو، ن دو دیا،
پریم تو سدیو ہی سمردھّ ہے۔
پریم ہے کہ جیوتی-سنیہی ایک ہے،
پریم ہے کہ پران-دیہان ایک ہے،
پریم ہے کہ وشو گیہ ایک ہے،
پریمہین گتِ، پرگتِ ورودھ ہے۔
پریم تو سدیو ہی سمردھّ ہے۔
پریم ہے اسیلیئے دلت دنج،
پریم ہے اسیلیئے وجت دنج،
پریم ہے اسیلیئے اجت منج،
پریم کے بنا وکاس وردھّ ہے۔
پریم تو سدیو ہی سمردھّ ہے۔
نتی ورت کرے نتی تپ کرے،
نتی وید-پاٹھ نتی جپ کرے،
نتی گنگ-دھار میں ترے-ترے،
پریم جو ن تو منج اشدھّ ہے۔
پریم تو سدیو ہی سمردھّ ہے۔
بے شرم سمی شرما ہی جائیگا
بوڑھے امبر سے مانگو مت پانی
مت ٹیرو بھکشک کو کہکر دانی
دھرتی کی تپن ن ہئی اگر کم تو
ساون کا موسم آ ہی جائیگا
مٹی کا تل-تلکر جلنا ہی تو
اسکا کنکڑ سے کنچن ہونا ہے
جلنا ہے نہیں اگر جیون میں تو
جیون مریض کا ایک بچھونا ہے
انگاروں کو من مانی کرنے دو
لپٹوں کو ہر شیطانی کرنے دو
سمجھوتہ ن کر لییا گر پتجھر سے
آنگن پھولوں سے چھا ہی جائیگا۔
بوڑھے امبر سے مانگو مت پانی
وے ہی موسم کو گیت بناتے جو
مزراب پہنتے ہیں وپداؤں کی
ہر خوشی انہیں کو دل دیتی ہے جو
پی جاتے ہر ناخشی ہواؤں کی
چنتا کیا جو ٹوٹا ہر سپنا ہے
پرواہ نہیں جو وشو ن اپنا ہے
تم ذرا بانسری میں سور پھونکو تو
پپیہا دروازے گا ہی جائیگا۔
بوڑھے امبر سے مانگو مت پانی
جو رتوؤں کی تقدیر بدلتے ہیں
وے کچھ-کچھ ملتے ہیں ویرانوں سے
دل تو انکے ہوتے ہیں شبنم کے
سینے انکے بنتے چٹانوں سے
ہر سکھ کو ہرجائی بن جانے دو،
ہر دکھ کو پرچھائی بن جانے دو،
یدی اوڑھ لییا تمنے خود شیش کفن،
قاتل کا دل گھبرا ہی جائیگا۔
بوڑھے امبر سے مانگو مت پانی
دنییا کیا ہے، موسم کی کھڑکی پر
سپنوں کی چمکیلی-سیکیلی چلمن ہے،
پردہ گھر جائے تو نشِ ہی نشِ ہے
پردہ اٹھ جائے تو دن ہی دن ہے،
من کے کمروں کے دروازے کھولو
کچھ دھوپ اور کچھ آندھی میں ڈولو
شرمائے پانو ن یدی کچھ کانٹوں سے
بے شرم سمی شرما ہی جائیگا۔
بوڑھے امبر سے مانگو مت پانی
(کنچن=سونا، وپداؤں=مشکلاں)
مانو کوی بن جاتا ہے
تب مانو کوی بن جاتا ہے !
جب اسکو سنسار رلاتا،
وہ اپنوں کے سمیپ جاتا،
پر جب وے بھی ٹھکرا دیتے
وہ نج من کے سمکھ آتا،
پر اسکی دربلتا پر جب من بھی اسکا مسکاتا ہے !
تب مانو کوی بن جاتا ہے !
میرا اتہاس نہیں ہے
کال بادلوں سے دھل جائے وہ میرا اتہاس نہیں ہے!
گایک جگ میں کون گیت جو مجھ سا گائے،
میننے تو کیول ہیں ایسے گیت بنائے،
کنٹھ نہیں، گاتی ہیں جنکو پلکیں گیلی،
سور-ثمر جنکا اشرو-موتییا، ہاس نہیں ہے!
کال بادلوں سے !
مجھسے جیادا مست جگت میں مستی جسکی،
اور ادھک آزاد اچھوتی ہستی کسکی،
میری بلبل چہکا کرتی اس بگییا میں،
جہاں سدا پتجھر، آتا مدھوماس نہیں ہے!
کال بادلوں سے !
کسمیں اتنی شکتی ساتھ جو قدم دھر سکے،
گتی ن پون کی بھی جو مجھسے ہوڑ کر سکے،
میں ایسے پتھ کا پنتھی ہوں جسکو کشن بھر،
منزل پر بھی رکنے کا اوکاش نہیں ہے!
کال بادلوں سے !
کون وشو میں ہے جسکا مجھسے سر اونچا؟
ابھرنکش یہ تنگ ہمالی بھی تو نیچا،
کیونکِ کھلے ہیں میرے لوچن اس دنییا میں،
جہاں دھرا تو ہے لیکن آکاش نہیں ہے!
کال بادلوں سے !
میرا گیت دییا بن جایے
اندھیارا جسسے شرمایے،
اجیارا جسکو للچایے،
ایسا دے دو درد مجھے تم
میرا گیت دییا بن جایے!
اتنے چھلکو اشرو تھکے ہر
راہ گیر کے چرن دھو سکوں،
اتنا نردھن کرو کہ ہر
دروازے پر سروسو کھو سکوں
ایسی پیر بھرو پرانوں میں
نیند ن آیے جنم-جنم تک،
اتنی سدھ-بدھ ہرو کہ
سانورییا خود بانسرییا بن جایے!
ایسا دے دو درد مجھے تم
میرا گیت دییا بن جایے!!
گھٹے ن جب اندھیار، کرے
تب جلکر میری چتا اجیلا،
پہلا شو میرا ہو جب
نکلے مٹنے والوں کا میلہ
پہلے میرا کفن پتاکا
بن پھہرے جب کرانتی پکارے،
پہلے میرا پیار اٹھے جب
اسمی مرتیُ پریا بن جایے!
ایسا دے دو درد مجھے تم
میرا گیت دییا بن جایے!!
مرجھا ن پایے فصل ن کوئی
ایسی کھاد بنے اس تن کی،
کسی ن گھر دیپک بجھ پایے
ایسی جلن جلے اس من کی
بھوکھی سویے رات ن کوئی
پیاسی جاگے صبح ن کوئی،
سور برسے ساون آ جایے
رقت گرے، گیہوں اگ آیے!
ایسا دے دو درد مجھے تم
میرا گیت دییا بن جایے!!
بہے پسینہ جہاں، وہاں
ہریانے لگے نئی ہرییالی،
گیت جہاں گا آئے، وہاں
چھا جائے سورج کی اجیالی
ہنس دے میرا پیار جہاں
مسکا دے میری مانو-ممتا
چندن ہر مٹی ہو جای
نندن ہر بگییا بن جایے۔
ایسا دے دو درد مجھے تم
میرا گیت دییا بن جایے!!
انکی لاٹھی بنے لیکھنی
جو ڈگمگا رہے راہوں پر،
ہردی بنے انکا سنگھاسن
دیش اٹھایے جو باہوں پر
شرم کے کارن چوم آئی
وہ دھول کرے مستک کا ٹیکا،
کاوی بنے وہ کرم، کلپنا-
سے جو پوروَ کریا بن جایے!
ایسا دے دو درد مجھے تم
میرا گیت دییا بن جایے!!
مجھے شراپ لگ جایے، ن دوڑوں
جو اسہای پکاروں پر میں،
آنکھیں ہی بجھ جاییں، بے بسی
دیکھوں اگر بہاروں پر میں
ٹوٹے میرے ہاتھ ن یدی یہ
اٹھا سکیں گرنے والوں کو
میرا گانا پاپ اگر
میرے ہوتے مانو مر جای!
ایسا دے دو درد مجھے تم
میرا گیت دییا بن جایے!!
مگر نٹھر ن تم رکے، مگر نٹھر ن تم رکے!
پکارتا رہا ہردی، پکارتے رہے نین،
پکارتی رہی سہاگ دیپ کی کرن-کرن،
نشا-دشا، ملن-ورہ ودگدھ ٹیرتے رہے،
کراہتی رہی سلجّ سیج کی شکن شکن،
اسنکھی شواس بن سمیر پتھ بہارتے رہے،
مگر نٹھر ن تم رکے!
پکڑ چرن لپٹ گئے انیک اشرو دھول سے،
گنتھے سویش کیش میں اشیش سوپن پھول سے،
انام کامنا شریر چھانہ بن چلی گئی،
گیا ہردی سدی بندھا بندھا چپل دکول سے،
بلکھ-بلکھ جلا شلبھ سامان روپ ادھجلا،
مگر نٹھر ن تم رکے!
وپھل ہئی سمست سادھنا انادِ ارچنا،
استی سرشٹی کی کتھا، استی سوپن کلپنا،
ملن بنا ورہ، اکال مرتیُ چیتنا بنی،
امرت ہوا گرل، بھکھارنی البھی بھاونا،
سہاگ-شیش-پھول ٹوٹ دھول میں گھرا مرجھا-
مگر نٹھر ن تم رکے!
ن تم رکے، رکے ن سوپن روپ-راتری-گیہری میں،
ن گیت-دیپ جل سکے اجسر-اشرو-مینہ میں،
دھواں دھواں ہوا گگن، دھرا بنی جولت چتا،
انگار سا جلا پرنی اننگ-انک-دیہہ میں،
مرن-ولاس-راس-پران-کولان پر رچا اٹھا،
مگر نٹھر ن تم رکے!
آکاش میں چانند اب، ن نیند رات میں رہی،
ن انجھ میں شرم، پربھا ن اب پربھات میں رہی،
ن پھول میں سگندھ، پات میں ن سوپن نیڑ کے،
سندیش کی ن بات وہ وسنت-واتت میں رہی،
ہٹھی اسہی سوت یامنی بنی تنی رہی-
مگر نٹھر ن تم رکے!
پنتھ پر چلنا تجھے تو مسکراکر چل مسافر!
وہ مسافر کیا جسے کچھ شول ہی پتھ کے تھکا دیں؟
حوصلہ وہ کیا جسے کچھ مشکلیں پیچھے ہٹا دیں؟
وہ پرگتی بھی کیا جسے کچھ رنگنی کلییاں تتلییاں،
مسکراکر گنگناکر دھییی-پتھیی، منزل بھلا دیں؟
زندگی کی راہ پر کیول وحی پنتھی سفل ہے،
آندھییوں میں، بجلییوں میں جو رہے اوچل مسافر!
پنتھ پر چلنا تجھے تو مسکراکر چل مسافر۔
جانتا جب تو کہ کچھ بھی ہو تجھے بڑھنا پڑیگا،
آندھییوں سے ہی ن خود سے بھی تجھے لڑنا پڑیگا،
سامنے جب تک پڑا کرتوی-پتھتوی تب تک منج او!
موت بھی آئے اگر تو موت سے بھڑنا پڑیگا،
ہے ادھک اچھا یہی پھر گرنتھ پر چل مسکراتا،
مسکراتی جائے جسسے زندگی اسپھل مسافر!
پنتھ پر چلنا تجھے تو مسکراکر چل مسافر۔
یاد رکھ جو آندھییوں کے سامنے بھی مسکراتے،
وے سمی کے پنتھ پر پدچنھ اپنے چھوڑ جاتے،
چنھ وے جنکو ن دھو سکتے پرلی-طوفان گھن بھی،
موک رہ کر جو سدا بھولے ہوؤں کو پتھ بتاتے،
کنتو جو کچھ مشکلیں ہی دیکھ پیچھے لوٹ پڑتے،
زندگی انکی انھیں بھی بھار ہی کیول مسافر!
پنتھ پر چلنا تجھے تو مسکراکر چل مسافر۔
کنٹکت یہ پنتھ بھی ہو جایگا آسان کشن میں،
پانو کی پیڑا کشنک یدی تو کرے انوبھوَ ن من میں،
سرشٹی سکھ-دکھ کیا ہردی کی بھاونا کے روپ ہیں دو،
بھاونا کی ہی پرتیدھونی گونجتی بھو، دشِ، گگن میں،
ایک اوپر بھاونا سے بھی مگر ہے شکتی کوئی،
بھاونا بھی سامنے جسکے ووش ویاکل مسافر!
پنتھ پر چلنا تجھے تو مسکراکر چل مسافر۔
دیکھ سر پر ہی گرجتے ہیں پرلی کے کال-بادل،
ویال بن پھپھارتا ہے سرشٹی کا ہرتابھ انچل،
کنٹکوں نے چھیدکر ہے کر دییا جرجر ثقل تن،
کنتو پھر بھی ڈال پر مسکا رہا وہ پھول پرتپھل،
ایک تو ہے دیکھکر کچھ شول ہی پتھ پر ابھی سے،
ہے لٹا بیٹھا ہردی کا دھیری، ساہس بل مسافر!
پنتھ پر چلنا تجھے تو مسکراکر چل مسافر۔
میں اکمپت دیپ پرانوں کا لیئے،
یہ تمر طوفان میرا کیا کریگا؟
بند میری پتلییوں میں رات ہے،
ہاس بن بکھرا ادھر پر پرات ہے،
میں پپیہا، میگھ کیا میرے لیئے،
زندگی کا نام ہی برسات ہے،
سانس میں میری اننچاسوں پون،
یہ پرلی-پومان میرا کیا کریگا؟
یہ تمر طوفان میرا کیا کریگا؟
کچھ نہیں ڈر وایو جو پرتیکول ہے،
اور پیروں میں کسکتا شول ہے،
کیونکِ میرا تو سدا انوبھوَ یہی،
راہ پر ہر ایک کانٹا پھول ہے،
بڑھ رہا جب میں لیئے وشواس یہ،
پنتھ یہ ویران میرا کیا کریگا؟
یہ تمر طوفان میرا کیا کریگا؟
مشکلیں مارگ دکھاتی ہیں مجھے،
آپھتیں بڑھنا بتاتی ہیں مجھے،
پنتھ کی اتنگ دردم گھاٹییاں
دھییی-گری چڑھنا سکھاتی ہیں مجھے،
ایک بھو پر، ایک نبھ پر پانو ہے،
یہ پتن-اتھان میرا کیا کریگا؟
میں طوفانوں مے چلنے کا عادی ہوں
تم مت میری منزل آسان کرو
ہیں فول روکتے، کاٹیں مجھے چلاتے
مرستھل، پہاڑ چلنے کی چاہ بڑھاتے
سچ کہتا ہوں جب مشکلیں نہ ہوتی ہیں
میرے پگ تب چلنے مے بھی شرماتے
میرے سنگ چلنے لگیں ہواییں جسسے
تم پتھ کے کن-کن کو طوفان کرو
میں طوفانوں مے چلنے کا عادی ہوں
تم مت میری منزل آسان کرو
انگار ادھر پے دھر میں مسکایا ہوں
میں مرگھٹ سے زندگی بلا کے لایا ہوں
ہوں آنکھ-مچونی کھیل چلا قسمت سے
سو بار مرتیُ کے گلے چوم آیا ہوں
ہے نہیں سویکار دیا اپنی بھی
تم مت مجھپر کوئی احسان کرو
میں طوفانوں مے چلنے کا عادی ہوں
تم مت میری منزل آسان کرو
شرم کے جل سے راہ سدا سنچتی ہے
گتی کی مشال آندھی میں ہی ہنستی ہے
شولنو سے ہی شرنگار پتھک کا ہوتا ہے
منزل کی مانگ لہو سے ہی سجتی ہے
پگ میں گتی آتی ہے، چھالے چھلنے سے
تم پگ-پگ پر جلتی چٹان دھرو
میں طوفانوں مے چلنے کا عادی ہوں
تم مت میری منزل آسان کرو
پھولوں سے جگ آسان نہیں ہوتا ہے
رکنے سے پگ گتیوان نہیں ہوتا ہے
اورودھ نہیں تو سنبھوَ نہیں پرگتی بھی
ہے نعش جہاں نرمم وہیں ہوتا ہے
میں بسا سکون نوَ-سورگ "دھرا" پر جسسے
تم میری ہر بستی ویران کرو
میں طوفانوں مے چلنے کا عادی ہوں
تم مت میری منزل آسان کرو
میں پنتھی طوفانوں مے راہ بناتا
میرا دنییا سے کیول اتنا ناطہ
وہ مجھے روکتی ہے اورودھ بچھاکر
میں ٹھوکر اسے لگاکر بڑھتا جاتا
میں ٹھکرا سکوں تمھیں بھی ہنسکر جسسے
تم میرا من-مانس پاشان کرو
میں طوفانوں مے چلنے کا عادی ہوں
تم مت میری منزل آسان کرو
آنسو جب سمانت ہونگے مجھکو یاد کییا جائیگا
جہاں پریم کا چرچہ ہوگا میرا نام لییا جائیگا۔
مان-پتر میں نہیں لکھ سکا
راجبھون کے سمانوں کا
میں تو عاشق رہا جنم سے
سندرتا کے دیوانوں کا
لیکن تھا معلوم نہیں یہ
کیول اس غلطی کے کارن
ساری امر بھٹکنے والا، مجھکو شاپ دییا جائیگا۔
کھلنے کو تییار نہیں تھی
تلسی بھی جنکے آنگن میں
میننے بھر-بھر دیئے ستارے
انکے مٹمیلے دامن میں
پیڑا کے سنگ راس رچایا
آنکھ بھری تو جھومکے گایا
جیسے میں جی لیا کسی سے کیا اس ترہ جییا جائیگا
کاجل اور کٹاکشوں پر تو
ریجھ رہی تھی دنییا ساری
میننے کنتو برسنے والی
آنکھوں کی آرتی اتاری
رنگ اڑ گئے سب سترنگی
تار-تار ہر سانس ہو گئی
پھٹا ہوا یہ کرتا اب تو جیادا نہیں سییا جائیگا
جب بھی کوئی سپنا ٹوٹا
میری آنکھ وہاں برسی ہے
تڑپا ہوں میں جب بھی کوئی
مچھلی پانی کو ترسی ہے،
گیت درد کا پہلا بیٹا
دکھ ہے اسکا کھیل کھلونا
کویتا تب میرا ہوگی جب ہنسکر جہر پییا جائیگا۔
اسکو بھی اپناتا چل،
اسکو بھی اپناتا چل،
راہی ہیں سب ایک ڈگر کے، سب پر پیار لٹاتا چل۔
بنا پیار کے چلے ن کوئی، آندھی ہو یا پانی ہو،
نئی عمر کی چنری ہو یا قمری پھٹی پرانی ہو،
تپے پریم کے لیئے، دھروی، جلے پریم کے لیئے دییا،
کون ہردی ہے نہیں پیار کی جسنے کی دربانی ہو،
تٹ-تٹ راس رچاتا چل،
پنگھٹ-پنگھٹ گاتا چل،
پیاسی ہے ہر گاگر درگ کا گنگاجل چھلکاتا چل۔
راہی ہیں سب ایک ڈگر کے سب پر پیار لٹاتا چل۔
کوئی نہیں پرایا، ساری دھرتی ایک بسیرا ہے،
اسکا خیمہ پشچم میں تو اسکا پورب ڈیرہ ہے،
شویت برن یا شیام برن ہو سندر یا کہ اسندر ہو،
سبھی مچھرییاں ایک تال کی کیا میرا کیا تیرا ہے؟
گلییاں گانو گنجاتا چل،
پتھ-پتھ پھول بچھاتا چل،
ہر دروازہ رامدوارا سبکو شیش جھکاتا چل۔
راہی ہیں سب ایک ڈگر کے سب پر پیار لٹاتا چل۔
ہردی ہردی کے بیچ کھائییاں، لہو بچھا میدانوں میں،
گھوم رہے ہیں یدھ سڑک پر، شانتی چھپی شمشانوں میں،
جنجیریں کٹ گئی، مگر آزاد نہیں انسان ابھی
دنییاں بھر کی خوشی قید ہے چاندی جڑے مکانوں میں،
سوئی کرن جگاتا چل،
روٹھی صبح مناتا چل،
پیار نقابوں میں ن بند ہو ہر گھونگھٹ کھسکاتا چل۔
راہی ہیں سب ایک ڈگر کے، سب پر پیار لٹاتا چل۔
سیج پر سادھیں بچھا لو،
آنکھ میں سپنے سجا لو
پیار کا موسم شبھے! ہر روز تو آتا نہیں ہے۔
یہ ہوا یہ رات، یہ
ایکانت، یہ رمجھم گھٹائیں،
یوں برستی ہیں کہ پنڈت-
مولوی پتھ بھول جائیں،
بجلییوں سے مانگ بھر لو
بادلوں سے سندھی کر لو
امر-بھرر آکاش میں پانی ٹھہر پاتا نہیں ہے۔
پیار کا موسم شبھے! ہر روز تو آتا نہیں ہے۔
دودھ-سیدھ ساڑھی پہن تم
سامنے ایسے کھڑی ہو،
جلد میں ساکیت کی
کاماینی جیسے مڑھی ہو،
لاج کا ولکل اتارو
پیار کا کنگن اجارو،
'کنپریا' پڑھتا ن وہ 'گیتانجلی' گاتا نہیں ہے۔
پیار کا موسم شبھے! ہر روز تو آتا نہیں ہے۔
ہو گئے سدن ہون تب
رات یہ آئی ملن کی
امر کر ڈالی دھواں جب
تب اٹھی ڈولی جلن کی،
مت لجاؤ پاس آؤ
خشبوؤں میں ڈوب جاؤ،
کون ہے چڑھتی عمر جو کیش گتھواتا نہیں ہے۔
پیار کا موسم شبھے! ہر روز تو آتا نہیں ہے۔
ہے امر وہ کشن کہ جس کشن
دھیان سب جتکر بھون کا،
من سنے سنواد تن کا،
تن کرے انوواد من کا،
چاندنی کا پھاگ کھیلو،
گود میں سب آگ لے لو،
روز ہی میہمان گھر کا دوار کھٹکاتا نہیں ہے۔
پیار کا موسم شبھے! ہر روز تو آتا نہیں ہے۔
وقت تو اس چور نوکر کی
ترہ سے ہے سیانا،
جو مچاتا شور خود ہی
لوٹ کر گھر کا خزانہ،
وقت پر پہرا بٹھاؤ
رات جاگو ؤ' جگاؤ،
پیار سو جاتا جہاں بھگوان سو جاتا وہیں ہے۔
پیار کا موسم شبھے! ہر روز تو آتا نہیں ہے۔
سوپن جھرے پھول سے، میت چبھے شول سے
لٹ گیے سنگار سبھی باغ کے ببول سے
اور ہم کھڑے-کھڑے بہار دیکھتے رہے۔
کارواں گزر گیا غبار دیکھتے رہے۔
نیند بھی کھلی ن تھی کہ ہای دھوپ ڈھل گئی
پانو جب تلک اٹھے کہ زندگی پھسل گئی
پات-پات جھر گیے کہ شاخ-شاخ جل گئی
چاہ تو نکل سکی ن پر عمر نکل گئی
گیت اشک بن گئے چھند ہو دفن گئے
ساتھ کے سبھی دیئے دھواں پہن پہن گیے
اور ہم جھکے-جھکے موڑ پر رکے-رکے
امر کے چڑھاو کا اتار دیکھتے رہے۔
کارواں گزر گیا غبار دیکھتے رہے۔
کیا شباب تھا کہ پھول-پھول پیار کر اٹھا
کیا جمال تھا کہ دیکھ آئینہ مچل اٹھا
اس طرف زمین اور آسماں ادھر اٹھا
تھام کر جگر اٹھا کہ جو ملا نظر اٹھا
ایک دن مگر یہاں ایسی کچھ ہوا چلی
لٹ گیی کلی-کلی کہ گھٹ گیی گلی-گلی
اور ہم لٹے-لٹے وقت سے پٹے-پٹے
سانس کی شراب کا خمار دیکھتے رہے۔
کارواں گزر گیا غبار دیکھتے رہے۔
ہاتھ تھے ملے کہ زلف چاند کی سنوار دوں
ہوٹھ تھے کھلے کہ ہر بہار کو پکار دوں
درد تھا دییا گیا کہ ہر دکھی کو پیار دوں
اور سانس یوں کہ سورگ بھومی پر اتار دوں
ہو سکا ن کچھ مگر شام بن گئی سحر
وہ اٹھی لہر کہ ڈھہ گیے قلعے بکھر بکھر
اور ہم ڈرے-ڈرے نیر نین میں بھرے
اوڑھکر کفن پڑے مزار دیکھتے رہے۔
کارواں گزر گیا غبار دیکھتے رہے۔
مانگ بھر چلی کہ ایک جب نئی نئی کرن
ڈھولکیں دھمک اٹھیں ٹھمک اٹھے چرن-چرن
شور مچ گیا کہ لو چلی دلہن چلی دلہن
گانو سب امڑ پڑا بہک اٹھے نین-نین
پر تبھی زہر بھری گاج ایک وہ گری
پنچھ گیا سندور تار-تار ہئی چونری
اور ہم آذان سے دور کے مکان سے
پالکی لییے ہئے قہار دیکھتے رہے۔
کارواں گزر گیا غبار دیکھتے رہے۔