شہید بھگت سنگھ دی پسندیدہ شاعری
مرزا غالب
1
یہ ن تھی ہماری قسمت جو وسالے یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتیزار ہوتا
تیرے وعدے پر جئیں ہم تو یہ جان چھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر ن جاتے اگر اعتبار ہوتا
تیری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا اہدے-فردا
کبھی تو ن توڑ سکتا اگر استیوار ہوتا
یہ کہاں کی دوستی ہے (کہ) بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چاراساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا
کہوں کسسے میں کے کیا ہے شبے غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا
(مرزا غالب)
پوری غزل
یہ ن تھی ہماری قسمت کہ وسالے-یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
تیرے وعدے پے جییے ہم تو یہ جان جھوٹھ جانا
کہ خوشی سے مر ن جاتے اگر اعتبار ہوتا
تیری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تو ن توڑ سکتا اگر استوار ہوتا
کوئی میرے دل سے پوچھے تیرے تیرے-نیمکش کو
یہ کھلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چاراساز ہوتا، کوئی غمگسار ہوتا
رگے-سنگ سے ٹپکتا وے لہو کہ پھر ن تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا
غم اگرچے جاں-گسل ہے، پر کہاں بچے کہ دل ہے
غمے-عشقَ 'گر ن ہوتا، غمے-روزگار ہوتا
کہوں کسسے میں کہ کیا ہے، شبے-غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا ؟ اگر ایک بار ہوتا
ہئے مر کے ہم جو رسوا، ہئے کیوں ن غرقے-دریا
ن کبھی جنازہ اٹھتا، ن کہیں مزار ہوتا
اسے کون دیکھ سکتا، کہ یغانا ہے وو یکتا
جو دئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا
یہ مسائیلے-تصوف، یہ تیرا بیان 'غالب'
تجھے ہم ولی سمجھتے، جو ن باداخوار ہوتا
(وصال=ملن، عہد=پرتگیا، استوار=پکا، تیرے-نیمکش=
ادھا کھچیا تیر، ناصح=اپدیشک، چاراساز=سہائک، غمگسار=
ہمدرد، سنگ=پتھر، شرار=انگارا، جاں-گسل=جان لیوا، شبے-غم=
غم دی رات، یغانا=بے مثال، یکتا=جس ورگا کوئی ہور نہیں،
مسائیلے-تصوف=بھگتی دیاں سمسیاواں، ولی=پیر، باداخوار=شرابی)
مرزا غالب
2
اشرتے قتل گہے اہلِ تمنا مت پوچھ
ادے-نجارا ہے شمشیر کی اریاں ہونا
کی تیرے قتل کے بعد اسنے زپھا سے طوبہ
کہ اس زد پشیمانکا پشیماں ہونا
حیف اس چارگرہ کپڑے کی قسمت غالب
جس کی قسمت میں لکھا ہو آشک کا گریباں ہونا
(مرزا غالب)
پوری غزل
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
گرییا چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی
درو-دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا
وائے دیوانگی-اے-شوق کہ ہردم مجھکو
آپ جانا ادھر اور آپ ہی ہیراں ہونا
جلوا از-بسکِ تقاضہ-اے-نگہ کرتا ہے
جوہرے-آئینہ بھی چاہے ہے مزگاں ہونا
اشرتے-کتلگہے-اہلِ-تمنا مت پوچھ
عیدے-نزارا ہے شمشیر کا ارییاں ہونا
لے گئے خاک میں ہم، داغے-تمنا-اے-نشاط
تو ہو اور آپ بسد رنگ گلستاں ہونا
اشرتے-پارا-اے-دل، زخم-تمنا خانا
لزتے-ریشے-جگر، غرقے-نمکداں ہونا
کی مرے قتل کے بعد، اسنے جفا سے طوبہ
ہای، اس جود پشیماں کا پشیماں ہونا
حیف، اس چار گرہ کپڑے کی قسمت 'غالب'
جسکی قسمت میں ہو، عاشق کا گریباں ہونا
(گرییا=رونا، کاشانے=گھر، شوق=اچھا، از-بسکِ=اس حد تکّ،
جوہرے-آئینہ=شیشے دا داغ، مزگاں=پلکاں، اشرتے=شان، ارییاں=ننگا،
نشاط=خوشی، بسد رنگ=سینکڑے رنگاں وچّ، اشرتے-پارا-اے-دل=دل دے ٹکڑیاں دا رنگ،
لزتے-ریشے-جگر=جگر دے زخم دا سواد، جود=جلدی، حیف=ہائے)
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال
1
جو شاخ-اے-نازک پے آشییانا بنیگا نہ-پاییدار ہوگا
2
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے-مارے
مے اسکا بندہ بنونگا جسکو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
3
میں زلمتے شب میں لے کے نکلونگا اپنے در ماندا کارواں کو
شرر فساں ہوگی آہ میری، نفس میرا شولابار ہوگا
4
ن پوچھ اکبال کا ٹھکانا ابھی وحی کیفیت ہے اس کی
کہیں سریراہ گزر بیٹھا ستمکشے انتیزار ہوگا
5
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانے عقل
لیکن کبھی- کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
6
نشہ پلا کے گرانا تو سبکو آتا ہے
مزہ تو جب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی
7
دہر کو دیتے ہیں موئے دید-اے-گریاں ہم
آخری بادل ہیں ایک گزرے ہئے توفاں کے ہم
(اپر دتے 1،2،3،4 شعر تے مصرعے ہیٹھلی غزل وچوں ہن)
زمانہ آیا ہے بے-ہجابی کا، عامَ دیدار-اے-یار ہوگا
زمانہ آیا ہے بے-ہجابی کا، عامَ دیدار-اے-یار ہوگا
سقوط تھا پردہ دار جس کا وو راز اب آشکار ہوگا
گزر گیا ہے اب وو دور ساقی کہ چھپ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنیگا سارا جہاں میخانا ہر کوئی باداخوار ہوگا
کبھی جو آوارہ-اے-جنوں تھے وو بستییوں میں پھر آ بسینگے
برہناپائی وحی رہیگی مگر نیا خار-زار ہوگا
سنا دییا گوش-اے-منتظر کو ہجاز کی خاموشی نے آخر
جو عہد سہرائییوں سے باندھا گیا تھا پھر استوار ہوگا
نکل کے صحرا سے جسنے روما کی سلطنت کو الٹ دییا تھا
سنا ہے یہ کدسییوں سے میننے وو شیر پھر ہوشیار ہوگا
کییا میرا تزکرا جو ساقی نے باداخواروں کی انجمن میں
تو پیر-اے-میخانا سن کے کہنے لگا کہ منہ پھٹ ہے خوار ہوگا
دیار-اے-مغرب کے رہنے والو، خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وو اب زر-اے-کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنزر سے آپ ہی خدکشی کریگی
جو شاخ-اے-نازک پے آشییانا بنیگا نہ-پاییدار ہوگا
چمن میں لالا دکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی کلی کو
یہ جانتا ہے اس دکھاوے سے دلجلوں میں شمار ہوگا
جو ایک تھا اے نگاہ تونے ہزار کرکے ہمیں دکھایا
یہی اگر کیفییت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہوگا
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اسکا بندہ بنونگا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
یہ رسم-اے-بزم-اے-فنا ہے اے دل گناہ ہے جمبش-اے-نظر بھی
رہیگی کیا آبرو ہماری جو تو یہاں بے قرار ہوگا
میں ظلمت-اے-شب میں لے کے نکلونگا اپنے درماندا کارواں کو
شرر فساں ہوگی آہ میری، نفس میرا شولابار ہوگا
نہ پوچھ 'اقبال' کا ٹھکانا ابھی وحی کیفییت ہے اسکی
کہیں سر-اے-راہ-اے-گزار بیٹھا ستم کش-اے-انتیزار ہوگا
(بے-ہجابی=کھلھاپن، سقوط=چپّ، آشکار=کھلھیگا، باداخوار=پین والا،
خار-زار=بییابان، استوار=پکا، درماندا=تھکیا ہویا، شرر فساں=
انگارے ورھاؤندی، نفس=ساہ)
(اپر دتا پنجواں (5) شعر ہیٹھلی غزل وچوں ہے)
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے
نظارے کی ہوس ہو تو لیلیٰ بھی چھوڑ دے
وائز ! کمال-اے-ترک سے ملتی ہے یاں مراد
دنییاں جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے ۔
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خود-کشی
رستہ بھی ڈھونڈ، خضر کا سودا بھی چھوڑ دے
مانند-اے-خاما تیری زباں پر ہے ہرفے-غیر
بیگانہ شے پے نازشے-بیجا بھی چھوڑ دے
لتفے-کلام کیا جو ن ہو دل میں دردے-عشقَ ؟
بسمل نہیں ہے تو، تو تڑپنا بھی چھوڑ دے
شبنم کی ترہ پھولوں پے رو، اور چمن سے چل
اس باغ میں کیام کا سودا بھی چھوڑ دے
ہے عاشقی میں رسم الگ سب سے بیٹھنا
بت-خانا بھی، حرم بھی، کلیسا بھی چھوڑ دے
سوداگری نہیں، یہ عبادت خدا کی ہے
اے بے خبر ! جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانے-عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
جینا وہ کیا جو ہو نفسے-غیر پر مدار ؟
شہرت کی زندگی کا بھروسہ بھی چھوڑ دے
شوخی جو ہے سوالے-مقرر میں اے کلیم !
شرتے-رضا یہ ہے کہ تقاضہ بھی چھوڑ دے
وائز ثبوت لائے جو مے کے جواز میں
'اقبال' کی یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے
(کمال-اے-ترک=پورا تیاگ، عقبیٰ=اگلا
جہان، تقلید=پچھے لگنا، روش=ڈھنگ،
مانند-اے-خاما=قلم وانگ، ہرفے-غیر=
بگانہ شبد، نازشے-بیجا=ایوگ مان،
بسمل=گھائل، کلیسا=گرجا، جزا=
بھلے دا بدلہ، پاسبان=راکھا، نفسے-غیر=
بگانہ ساہ،آسرا، مدار=نربھر، رضا=
بھانا مننا، جواز=حق وچ)
(اپر دتا چھیواں (6) شعر ہیٹھلی رچنا وچوں ہے)
ساقی
نشہ پلا کے گرانا تو سبکو آتا ہے
مزہ تو جب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی
جو باداکش تھے پرانے وو اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آب-بکائے-دوام لے ساقی
کٹی ہے رات تو ہنگامہ گستری میں تیری
سحر قریب ہے اﷲ کا نام لے ساقی
(باداکش=شراب پین والے)
(اپر دتا ستواں (7) شعر ہیٹھلی رچنا وچوں ہے)
گورستان-اے-شاہی
آسماں بادل کا پہنے خرقہ-اے-دیرینا ہے
کچھ مقدرج سا جبین-اے-ماہ کا آئینہ ہے
چاندنی پھیکی ہے اس نزارا-اے-خاموش میں
سبھ-اے-صادق سو رہی ہے رات کی آغوش میں
کس قدر اشجار کی حیرت-فضا ہے خامشی
بربت-اے-قدرت کی دھیمی سی نوا ہے خامشی
باطن-اے-ہر-زررا-اے-عالم سراپا درد ہے
اور خاموشی لب-اے-ہستی پے آہ-اے-سرد ہے
آہ جولاں-گاہ-اے-عالم-گیر یعنی وو ہسار
دوش پر اپنے اٹھائے سیکڑوں سدیوں کا بار
زندگی سے تھا کبھی مامور اب سنسان ہے
یہ خموشی اس کے ہنگاموں کا گورستان ہے
اپنے سکان-اے-کہن کی خاک کا دل-دادا ہے
کوہ کے سر پر مثال-اے-پاسباں استادہ ہے
ابر کے روزن سے وو بالا-اے-بام-اے-آسماں
ناظر-اے-عالم ہے نجم-اے-سبز-فام-اے-آسماں
خاک-بازی وسعت-اے-دنیا کا ہے منظر اسے
داستاں ناکامی-اے-انساں کی ہے ازبر اسے
ہے اضل سے یہ مسافر سو-اے-منزل جا رہا
آسماں سے انکلابوں کا تماشہ دیکھتا
گو سکوں ممکن نہیں عالم میں اختر کے لئے
فاتحہ-خوانی کو یہ ٹھہرا ہے دم بھر کے لئے
رنگ-او-آب-اے-زندگی سے گل-ب-دامن ہے زمیں
سیکڑوں خوں-گشتا تہزیبوں کا مدفن ہے زمیں
خواب-گہ شاہوں کی ہے یہ منزل-اے-حسرت-فضا
دیدا-اے-عبرت خراج-اے-اشک-اے-گل-گوں کر ادا
ہے تو گورستاں مگر یہ خاک-اے-گردوں-پایا ہے
آہ اک برگشتا قسمت قوم کا سرمایہ ہے
مکبروں کی شان حیرت-آفریں ہے اس قدر
جمبش-اے-مزگاں سے ہے چشم-اے-تماشہ کو ہزر
کیفیت ایسی ہے ناکامی کی اس تسویر میں
جو اتر سکتی نہیں آئینہ-اے-تحریر میں
سوتے ہیں خاموش آبادی کے ہنگاموں سے دور
مضطرب رکھتی تھی جن کو آرزو-اے-نہ-سبور
کبر کی ظلمت میں ہے ان آفتابوں کی چمک
جن کے دروازوں پے رہتا ہے جبیں-گستر فلک
کیا یہی ہے ان شہنشاہوں کی عظمت کا مال
جن کی تدبیر-اے-جہامبانی سے ڈرتا تھا زوال
روب-اے-فغفوری ہو دنیا میں کہ شان-اے-کیسری
ٹل نہیں سکتی غنیم-اے-موت کی یورش کبھی
بادشاہوں کی بھی قشط-اے-امر کا حاصل ہے گور
جادا-اے-عظمت کی گویا آخری منزل ہے گور
شورش-اے-بزم-اے-طرب کیا عود کی تقریر کیا
دردمندان-اے-جہاں کا نالہ-اے-شب-گیر کیا
عرصہ-اے-پیکار میں ہنگامہ-اے-شمشیر کیا
خون کو گرمانے والا نارا-اے-تکبیر کیا
اب کوئی آواز سوتوں کو جگا سکتی نہیں
سینہ-اے-ویراں میں جان-اے-رفتہ آ سکتی نہیں
روح-اے-مشت-اے-خاک میں زہمت-کش-اے-بے داد ہے
کوچا گرد-اے-نی ہوا جس دم نفس فریاد ہے
زندگی انساں کی ہے مانند-اے-مرغ-اے-خوش-نوا
شاخ پر بیٹھا کوئی دم چہچہایا اڑ گیا
آہ کیا آئے ریاز-اے-دہر میں ہم کیا گئے
زندگی کی شاخ سے پھوٹے کھلے مرجھا گئے
موت ہر شاہ او گدا کے خواب کی تعبیر ہے
اس ستمگر کا ستم انساف کی تسویر ہے
سلسلہ ہستی کا ہے اک بہر-اے-نہ-پیدا-کنار
اور اس دریا-اے-بے-پایاں کی موجیں ہیں مزار
اے ہوس خوں رو کہ ہے یہ زندگی بے-ایتبار
یہ شرارے کا تبسم یہ خس-اے-آتش-سوار
چاند جو صورتَ-گر-اے-ہستی کا اک اعجاز ہے
پہنے سیمابی کبا مہو-اے-خرام-اے-ناز ہے
چرخ-اے-بے-انجم کی دہشتناک وسعت میں مگر
بیکسی اس کی کوئی دیکھے ذرا وقت-اے-سحر
اک ذرا سا ابر کا ٹکڑا ہے جو مہتاب تھا
آخری آنسو ٹپک جانے میں ہو جس کی فنا
زندگی اقوام کی بھی ہے یونہی بے-ایتبار
رنگ-ہا-اے-رفتہ کی تسویر ہے ان کی بہار
اس زیاں-خانے میں کوئی ملت-اے-گردوں-وقار
رہ نہیں سکتی عبد تک بار-اے-دوش-اے-روزگار
اس قدر قوموں کی بربادی سے ہے خوگر جہاں
دیکھتا بے-ایتنائی سے ہے یہ منظر جہاں
ایک صورتَ پر نہیں رہتا کسی شی کو قرار
ذوق-اے-جدت سے ہے ترکیب-اے-مزاج-اے-روزگار
ہے نگین-اے-دہر کی زینت ہمیشہ نام-اے-نو
مادر-اے-گیتی رہی آبستن-اے-اقوام-اے-نو
ہے ہزاروں کافلوں سے آشنا یہ رہگزر
چشم-اے-کوہ-اے-نور نے دیکھے ہیں کتنے تاجور
مسر او بابل مٹ گئے باقی نشاں تک بھی نہیں
دفتر-اے-ہستی میں ان کی داستاں تک بھی نہیں
آ دبایا میہر-اے-ایراں کو اجل کی شام نے
عظمت-اے-یونان-او-روما لوٹ لی ایام نے
آہ مسلم بھی زمانے سے یونہی رخصت ہوا
آسماں سے ابر-اے-آزاری اٹھا برسا گیا
ہے رگ-اے-گل سبھ کے اشکوں سے موتی کی لڑی
کوئی سورج کی کرن شبنم میں ہے الجھی ہئی
سینہ-اے-دریا شواؤں کے لئے گہوارا ہے
کس قدر پیارا لب-اے-جو میہر کا نزارا ہے
مہو-اے-زینت ہے صنوبر جوئیبار-اے-آئینہ ہے
غنچہ-اے-گل کے لئے بعد-اے-بہار-اے-آئینہ ہے
نارا-زن رہتی ہے کویل باغ کے کاشانے میں
چشم-اے-انساں سے نہاں پتوں کے ازلت-خانے میں
اور بلبل مطرب-اے-رنگیں نوا-اے-گلستاں
جس کے دم سے زندہ ہے گویا ہوا-اے-گلستاں
عشقَ کے ہنگاموں کی اڑتی ہئی تسویر ہے
خاما-اے-قدرت کی کیسی شوخ یہ تحریر ہے
باغ میں خاموش جلسے گلستاں-زادوں کے ہیں
وادی-اے-کوہسار میں نعرے شباں-زادوں کے ہیں
زندگی سے یہ پرانا خاک-داں مامور ہے
موت میں بھی زندگانی کی تڑپ مستور ہے
پتیاں پھولوں کی گرتی ہیں خزاں میں اس ترہ
دست-اے-طفل-اے-خفتا سے رنگیں کھلونے جس ترہ
اس نشات-آباد میں گو عیش بے-اندازہ ہے
ایک غم یعنی غم-اے-ملت ہمیشہ تازہ ہے
دل ہمارے یاد-اے-عہد-اے-رفتہ سے خالی نہیں
اپنے شاہوں کو یہ امت بھولنے والی نہیں
اشک-باری کے بہانے ہیں یہ اجڑے بام او در
گریا-اے-پیہم سے بینا ہے ہماری چشم-اے-تر
دہر کو دیتے ہیں موتی دیدا-اے-گریاں کے ہم
آخری بادل ہیں اک گزرے ہئے توفاں کے ہم
ہیں ابھی صد-ہا گہر اس ابر کی آغوش میں
برق ابھی باقی ہے اس کے سینہ-اے-خاموش میں
وادی-اے-گل خاک-اے-صحرا کو بنا سکتا ہے یہ
خواب سے امید-اے-دہکاں کو جگا سکتا ہے یہ
ہو چکا گو قوم کی شان-اے-جلالی کا زہور
ہے مگر باقی ابھی شان-اے-جمالی کا زہور
میر تقی میر
میں شماں آخر شب ہوں سن سر گزشت میری
پھر صبح ہونے تک تو قصہ ہی مختصر ہے
پوری غزل
ای حب-اے-جہا والو، جو آج تاجور ہے
کلھ اسکو دیکھیو تم، نے تاج ہے نے سر ہے
اب کی ہوا-اے-گل میں، سیرابی ہے نہایت
جو-اے-چمن پ سبزہ، مشگان-اے-چشم-اے-تر ہے
شم'-اے-آخر-اے-شب ہوں سن سرگزشت میری
پھر صبح ہونے تک تو قصہ ہی مختصر ہے
اب پھر ہمارا اسکا، محشر میں ماجرا ہے
دیکھیں تو اس جگہ کیا انساف-اے-دادگر ہے
آفت رسیدہ ہم کیا سر کھینچیں اس چمن میں
جوں نخل-اے-خشک، ہمکو، نے سایہ نے ثمر ہے
(حب-اے-جہا=دھن تے مان دے لوبھی، نے=ناہیں،نہ،
تاجور=تاجوالے،راجے، ہوا-اے-گل= پھلّ دی
ہوا،بہار دا موسم، سیرابی=ترپت، نہایت=
بہت، جو-اے-چمن= باغ وچّ وہن والا پانی،
سبزہ=ہری گھاہ، مشگان-اے-چشم-اے-تر=
بھجیاں اکھاں دیاں پلکاں، شم'-اے-آخر-اے-شب=
رات دے آخری پہر دا چراغ، سرگزشت=
کہانی، مختصر=تھوڑھا،تھوڑھی، محشر=کیامت،
ماجرا=آہمنا-ساہمنا، انساف-اے-دادگر=
نیاں کرن والے دا نیاں، آفت رسیدہ=
مصیبت وچّ پھسیا، سر کھینچیں =سر اٹھا کے،
نخل-اے-خشک=سکیا رکھ؛ ثمر=پھل)
اگیات
1
اؤروں کا پیام اور میرا پیام اور ہے
عشقَ کے دردمندوں کا ترزے کلام اور ہے
2
عقل کیا چیز ہے ایک وضع کی پابندی ہے
دل کو مدت ہئی اس قید سے آزاد کیا
3
بھلا نبھیگی تیری ہمسے کیوں کر اے وایز
کہ ہم تو رسمیں موہبت کو عامَ کرتے ہیں
میں انکی مہفل-اے-عشرت سے کانپ جاتا ہوں
جو گھر کو پھونک کے دنیا میں نام کرتے ہیں۔
4
آب و ہوا میں رہیگی خیال کی بجلی
یہ مشتے خاک ہے فانی رہے ن رہے
5
میں وو چراغ ہوں جسکو پھروگیہستی میں
قریب صبح روشن کیا، بجھا بھی دیا
6
تجھے، شاکھ-اے-گل سے توڑیں جہینسیب تیرے
تڑپتے رہ گئے گلزار میں رقیب تیرے۔
(اس رچنا 'تے کم جاری ہے)
|