Punjabi Kavita
Dushyant Kumar

Punjabi Kavita
  

Aawazon Ke Ghere Dushyant Kumar

آوازوں کے گھیرے دشینت کمار

1. آگ جلتی رہے

ایک تیکھی آنچ نے
اس جنم کا ہر پل چھوا،
آتا ہوا دن چھوا
ہاتھوں سے گجرتا کلھ چھوا
ہر بیج، انکوا، پیڑ پودھا،
پھول-پتی، پھل چھوا
جو مجھے چھونے چلی
ہر اس ہوا کا آنچل چھوآ
…پرہر کوئی بھی بیتا نہیں اچھوتا
آگ کے سمپرک سے
دوس، ماسوں اور ورشوں کے کڑاہوں میں
میں ابلتا رہا پانی-ثانی
پرے ہر ترک سے
ایک چوتھائی عمر
یوں کھولتے بیتی بنا اوکاش
سکھ کہاں
یوں بھاپ بن-بن کر چکا،
ریتا، بھٹکتا
چھانتا آکاش
آہ ! کیسا کٹھن
…کیسا پوچ میرا بھاگ !
آگ چاروں اور میرے
آگ کیول بھاگ !
سکھ نہیں یوں کھولنے میں سکھ نہیں کوئی،
پر ابھی جاگی نہیں وہ چیتنا سوئی،
وہ، سمی کی پرتیکشا میں ہے،جگیگی آپ
جیوں کہ لہراتی ہئی ڈھکنے اٹھاتی بھاپ !
ابھی تو یہ آگ جلتی رہے، جلتی رہے
زندگی یوں ہی کڑاہوں میں ابلتی رہے ۔

2. آج

اکشروں کے اس نوڑ ون میں بھٹکتیں
یہ ہزاروں لیکھنی اتہاس کا پتھ کھوجتی ہیں
…کرانتی !…کتنا ہنسو چاہے
کنتو یہ جن سبھی پاگل نہیں۔

راستوں پر کھڑے ہیں پیڑا بھری انگونج سنتے
شیش دھنتے وپھلتا کی چیخ پر جو قان
سور-لیر کھوجتے ہیں
یہ سبھی آدیش-بادھت نہیں۔

اس وپھل واتاورن میں
جو کہ لگتا ہے کہیں پر کچھ مہک-سیک ہے
بھاونا ہو…سویرا ہو…
یا پرتیکشت پکشییوں کے گان-
کنتو کچھ ہے؛
گندھ-واست وینییوں کا انتظار نہیں۔

یہ پرتیکشا : یہ وپھلتا : یہ پرستھتی :
ہو ن اسکا کہیں بھی الیکھ چاہے
کھاد-سید اتہاس میں بس کام آیے
پر سمی کو ارتھ دیتی جا رہی ہے۔

3. آوازوں کے گھیرے

آوازیں…
ستھول روپ دھرکر جو
گلییوں، سڑکوں میں منڈلاتی ہیں،
قیمتی کپڑوں کے جسموں سے ٹکراتی ہیں،
موٹروں کے آگے بچھ جاتی ہیں،
دوکانوں کو دیکھتی للچاتی ہیں،
پرشن چنھ بنکر انایاس آگے آ جاتی ہیں-
آوازیں !
آوازیں، آوازیں !!

مترو !
میرے ویکتتو
اور مجھ-جیسے انگن ویکتتووں کا کیا مطلب ؟
میں جو جیتا ہوں
گاتا ہوں
میرے جینے، گانے
کوی کہلانے کا کیا مطلب ؟
جب میں آوازوں کے گھیرے میں
پاپوں کی چھایاؤں کے بیچ
آتما پر بوجھا-ساجھا لادے ہوں ۔

4. انوکول واتاورن

اڑتے ہئے گگن میں
پرندوں کا شور
درروں میں، گھاٹییوں میں
زمین پر
ہر اور…

ایک ننہا-صاحا گیت
آؤ
اس شوروگل میں
ہم-تم بنیں،
اور پھینک دیں ہوا میں اسکو
تاکِ سبھ سنیں،
اور شانت ہوں ہردی وے
جو اپھنتے ہیں
اور لوگ سوچیں
اپنے من میں وچاریں
ایسے بھی واتاورن میں گیت بنتے ہیں ۔

5. درشٹانت

وہ چکرویوہ بھی بکھر گیا
جسمیں گھرکر ابھیمنیو سمجھتا تھا خدکو ۔
آکرامک سارے چلے گیے
آکرمن کہیں سے نہیں ہوا
بس میں ہی درنوار تم کی چادر-جیسا
اپنے نشکریی جیون کے اوپر پھیلا ہوں
بس میں ہی ایکاکی اس یدھ-ستھل کے بیچ کھڑا ہوں ۔

یہ ابھیمنیو ن بن پانے کا کلیش !
یہ اسسے بھی کہیں ادھک کشت-وکشت سب پریویش !!
اس یدھ-ستھل سے بھی زیادا بھیپرد…رورو
میرا ہردی-پردیش!!!

اتہاسوں میں نہیں لکھا جاییگا ۔
او اس تم میں چھپی ہئی کورو سیناؤ!
آؤ ! ہر دھوکھے سے مجھے لیل لو،
میرے جیون کو درشٹانت بناؤ؛
نیے مہابھارت کا ویوہ وروں میں ۔
کنٹھت شستر بھلے ہوں ہاتھوں میں
لیکن لڑتا ہوا مروں میں ۔

6. ایک یاترا-سنسمرن

بڑھتی ہی گیی ٹرین مہاشونی میں اکشت
یاتری میں لکشیہین
یاتری میں سنگیاہت ۔

چھوٹتے گیے پیچھے
گانووں پر گانو
اور نگروں پر نگر
باغوں پر باغ
اور پھولوں کے ڈھیر
ہرے-بھرے کھیت ؤ' تڑاگ
پیلے میدان
سبھی چھوٹتے گیے پیچھے…
لگتا تھا
کٹ جاییگا اب یہ سارا پتھ
بس یوں ہی کھڑے-کھڑے
ڈبے کے دروازے پکڑے-پکڑے ۔

بڑھتی ہی گیی ٹرین آگے
اور آگے-
راہ میں وحی کشن
پھر بار-بار جاگے
پھر وحی وداعی کی بیلا
ؤ' میں پھر یاترا میں-
لوگوں کے باو جود
ارتھشونی آنکھوں سے دیکھتا ہوا تمکو
رہ گیا اکیلا ۔

بڑھتی ہی گیی ٹرین
دھک-دھک دھک-دھک کرتی
مجھے لگا جیسے میں
اندھکار کا یاتری
پھر میری آنکھوں میں گہرایا اندھکار
باہر سے بھیتر تک بھر آیا اندھکار ۔

7. کون-سان پتھ

تمہارے آبھار کی لپی میں پرکاشت
ہر ڈگر کے پرشن ہیں میرے لیئے پٹھنیی
کون-سان پتھ کٹھن…؟
مجھکو بتاؤ
میں چلونگا ۔

کون-سان سنسان تمکو کوچتا ہے
کہو، بڑھکر اسے پی لوں
یا ادھر پر شنکھ-ساکھ رکھ پھونک دوں
تمہارے وشواس کا جی-گھوش
میرے ساہسک سور میں مکھر ہے ۔

تمہارا چمبن
ابھی جل رہا ہے بھال پر
دیپک سریکھا
مجھے بتلاؤ
کون-سین دشی میں اندھیرا ادھک گہرا ہے ۔

8. سانسوں کی پردھی

جیسے اندھکار میں
ایک دیپک کی لو
اور اسکے ورت میں کروٹ بدلتا-سالتا
پیلا اندھیرا ۔
ویسے ہی
تمہاری گول باہوں کے دایرے میں
مسکرا اٹھتا ہے
دنییا میں سبسے اداس جیون میرا ۔
اکثر سوچا کرتا ہوں
اتنی ہی کیوں ن ہئی
آیو کی پردھی اور سانسوں کا گھیرا ۔

9. سوکھے پھول : اداس چراغ

آج لوٹتے گھر دفتر سے پتھ میں قبرستان دکھا
پھول جہاں سوکھے بکھرے تھے اور چراغ ٹوٹے-پھٹے
یوں ہی اتسکتا سے میننے تھوڑے پھول بٹور لییے
کوتوہلوش ایک چراغ اٹھایا ؤ' سنگ لے آیا

تھوڑا-ساڑا جی دکھا، کہ دیکھو، کتنے پیارے تھے یہ پھول
کتنی بھینی، کتنی پیاری ہوگی انکی گندھ کبھی،
سوچا، یہ چراغ جسنے بھی یہاں جلاکر رکھے تھے
انکے من میں ہوگی کتنی گہری پیڑا سنیہ-پگیہ
تبھی آ گئی گندھ ن جانے کیسے سوکھے پھولوں سے
گھر کے بچے 'پھول-پھول' چلاتے آیے مجھ تک بھاگ،
میں کیا کہتا آخر اس ہک لینے والی پیڑھی سے
دینے پڑے ووس ہوکر وے سوکھے پھول، اداس چراغ